اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کے نشان اپنی مخلوق کے سامنے رکھتا ہے کہ اس نے سمندروں کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ کشتیاں ان میں برابر آئیں جائیں۔ بڑی بڑی کشتیاں سمندروں میں ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے زمین میں اونچے پہاڑ۔ ان کشتیوں کو ادھر سے ادھر لے جانے والی ہوائیں اس کے قبضے میں ہیں اگر وہی چاہے تو ان ہواؤں کو روک لے پھر تو بادبان بیکار ہو جائیں اور کشتی رک کر کھڑی ہو جائے ہر وہ شخص جو سختیوں میں صبر کا اور آسانیوں میں شکر کا عادی ہو اس کے لیے تو بڑی عبرت کی جا ہے وہ رب کی عظیم الشان قدرت اور اس کی بےپایاں سلطنت کو ان نشانوں سے سمجھ سکتا ہے اور جس طرح ہوائیں بند کر کے کشتیوں کو کھڑا کر لینا اور روک لینا اس کے بس میں ہے اسی طرح ان پہاڑوں جیسی کشتیوں کو دم بھر میں ڈبو دینا بھی اس کے ہاتھ ہے اگر وہ چاہے تو اہل کشتی کے گناہوں کے باعث انہیں غرق کر دے۔ ابھی تو وہ بہت سے گناہوں سے درگذر فرما لیتا ہے اور اگر سب گناہوں پر پکڑے تو جو بھی کشتی میں بیٹھے سیدھا سمندر میں ڈوبے۔ لیکن اس کی بےپایاں رحمت ان کو اس پار سے اس پار کر دیتی ہے۔
علماء تفسیر نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسی ہوا کو ناموافق کر دے۔ تیز و تند آندھی چلا دے جو کشتی کو سیدھی راہ چلنے ہی نہ دے ادھر سے ادھر کر دے سنبھالے نہ سنبھل سکے جہاں جانا ہے اس طرف جا ہی نہ سکے اور یونہی سرگشتہ و حیران ہو ہو کر اہل کشتی تباہ ہو جائیں۔ الغرض اگر ہوا بند کر دے تو کھڑے کھڑے ناکام رہیں اگر تیز کر دے تو ناکامی۔
لیکن یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ خوشگوار موافق ہوائیں چلاتا ہے اور لمبے لمبے سفر ان کشتیوں کے ذریعہ بنی آدم طے کرتا ہے اور اپنے مقصد کو پالیتا ہے یہی حال پانی کا ہے کہ اگر بالکل نہ برسائے خشک سالی رہے دنیا تباہ ہو جائے۔ اگر بہت ہی برسا دے تو تر سالی کوئی چیز پیدا نہ ہونے دے اور دنیا ہلاک ہو جائے۔ ساتھ ہی مینہ کی کثرت طغیانی کا مکانوں کے گرنے کا اور پوری بربادی کا سبب بن جائے یہاں تک کہ رب کی مہربانی سے جن شہروں میں اور جن زمینوں میں زیادہ بارش کی ضرورت ہے وہاں کثرت سے مینہ برستا ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہے وہاں کمی سے۔
پھر فرماتا ہے کہ ہماری نشانیوں سے جھگڑنے والے ایسے موقعوں پر تو مان لیتے ہیں کہ ہماری قدرت سے باہر نہیں۔ ہم اگر انتقام لینا چاہیں ہم اگر عذاب کرنا چاہیں تو وہ چھوٹ نہیں سکتے سب ہماری قدرت اور مشیت تلے ہیں «فَسُبْحَانَہُ مَا اَعْظَمَ شَاْنَہُ»