اوپر کی آیتوں میں جنت کی نعمتوں کا ذکر کر کے بیان فرما رہا ہے کہ ایماندار , نیک کار بندوں کو اس کی بشارت ہو پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ قریش کے مشرکین سے کہہ دو کہ اس تبلیغ پر اور اس تمہاری خیر خواہی پر میں تم سے کچھ طلب تو نہیں کر رہا۔ تمہاری بھلائی تو ایک طرف رہی تم اگر اپنی برائی سے ہی ٹل جاؤ اور مجھے رب کی رسالت پہنچانے دو اور قرابت داری کے رشتے کو سامنے رکھ کر میری ایذاء رسانی سے ہی رک جاؤ تو یہی بہت ہے صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اس سے مراد قرابت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے عجلت سے کام لیا سنو قریش کے جس قدر قبیلے تھے سب کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری تھی تو مطلب یہی کہ تم اس رشتے داری کا لحاظ رکھو جو مجھ میں اور تم میں ہے۔ [صحیح بخاری:4818]
حضرت مجاہدرحمہ اللہ، عکرمہ رحمہ اللہ، قتادہ رحمہ اللہ، سدی رحمہ اللہ، ابو مالک رحمہ اللہ، عبد الرحمن رحمہ اللہ وغیرہ بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش سے کہا میں تم سے اس کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتا مگر یہ کہ تم اس قرابت داری کا خیال رکھو جو مجھ اور تم میں ہے۔ اس میری قرابت کا حق جو تم پر ہے وہ ادا کرو۔ [طبرانی اوسط:3347:ضعیف]
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جو دلیلیں دی ہیں جس ہدایت کا راستہ بتایا ہے اس پر کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم اللہ کو چاہنے لگو اور اس کی اطاعت کی وجہ سے اس سے قرب اور نزدیکی حاصل کر لو۔ [مسند احمد:268/1:ضعیف]
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے تو یہ دوسرا قول ہوا پہلا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رشتے داری کو یاد دلانا۔
دوسرا قول آپ کی یہ طلب کہ لوگ اللہ کی نزدیکی حاصل کر لیں۔
تیسرا قول جو حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی روایت سے گزرا کہ تم میری قرابت کے ساتھ احسان اور نیکی کرو۔ ابو الدیلم کا بیان ہے کہ جب حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کو قید کر کے لایا گیا اور دمشق کے بالاخانے میں رکھا گیا تو ایک شامی نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں قتل کرایا اور تمہارا ناس کرا دیا اور فتنہ کی ترقی کو روک دیا یہ سن کر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کیا تو نے قرآن بھی پڑھا ہے اس نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا اس میں «حٰم» والی سورتیں بھی پڑھی ہیں؟ اس نے کہا واہ سارا قرآن پڑھ لیا اور «حٰم» والی سورتیں نہیں پڑھیں؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا پھر کیا ان میں اس آیت کی تلاوت تو نے نہیں کی؟ آیت «قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ»[ 42- الشورى: 23 ] یعنی میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر محبت قرابت کی۔ اس نے کہا پھر کیا تم وہ ہو؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ہاں! حضرت عمرو بن شعیب رحمہ اللہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا مراد قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
ابن جریر میں ہے کہ انصار رضی اللہ عنہم نے اپنی خدمات اسلام گنوائیں گویا فخر کے طور پر۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم تم سے افضل ہیں جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مجلس میں آئے اور فرمایا انصاریو کیا تم ذلت کی حالت میں نہ تھے؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے عزت بخشی! انہوں نے کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں۔ فرمایا: کیا تم گمراہ نہ تھے؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے ہدایت کی؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک آپ نے سچ فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم مجھے کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا کیا کہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں کہتے؟ کہ کیا تیری قوم نے تجھے نکال نہیں دیا تھا؟ اس وقت ہم نے تجھے پناہ دی کیا انہوں نے تجھے جھٹلایا نہ تھا؟ اس وقت ہم نے تیری تصدیق کی؟ کیا انہوں نے تجھے پست کرنا نہیں چاہا تھا اس وقت ہم نے تیری مدد کی؟ اس طرح کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی بہت سی باتیں کیں یہاں تک کہ انصار اپنے گھٹنوں پر جھک پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہماری اولاد اور جو کچھ ہمارے پاس ہے سب اللہ کا اور سب اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:30678:ضعیف]
پھر یہ آیت «قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ»[ 42- الشورى: 23 ] نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم میں بھی اسی کے قریب ضعیف سند سے مروی ہے بخاری و مسلم میں یہ حدیث ہے . [صحیح بخاری:4330]
اس میں ہے کہ یہ واقعہ حنین کی غنیمت کی تقسیم کے وقت پیش آیا تھا اور اس میں آیت کے اترنے کا ذکر بھی نہیں اور اس آیت کو مدینے میں نازل شدہ ماننے میں بھی قدرے تامل ہے اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے پھر جو واقعہ حدیث میں مذکور ہے اس واقعہ میں اور اس آیت میں کچھ ایسی زیادہ ظاہر مناسبت بھی نہیں ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا اس آیت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت رکھنے کا ہمیں حکم باری ہوا ہے آپ نے فرمایا فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم۔ [طبرانی کبیر:12384:ضعیف]
لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور اس کا راوی مبہم ہے جو معروف نہیں پھر اس کا استاد ایک شیعہ ہے جو بالکل ثقاہت سے گرا ہوا ہے اس کا نام حسین اشغر ہے اس جیسی حدیث بھلا اس کی روایت سے کیسے مان لی جائے گی؟ پھر مدینے میں آیت نازل ہونا ہی مستعد ہے حق یہ ہے کہ آیت مکی ہے اور مکہ شریف میں فاطمہ کا عقد ہی نہ ہوا تھا اولاد کیسی؟ آپ رضی اللہ عنہا کا عقد تو صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ بدر کے بعد سنہ 2 ھ میں ہوا۔
پس صحیح تفسیر اس کی وہی ہے جو حبرالامة ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کی ہے جو بحوالہ بخاری پہلے گذر چکی ہم اہل بیت کے ساتھ خیر خواہی کرنے کے منکر نہیں ہے ہم مانتے ہیں کہ ان کے ساتھ احسان و سلوک اور ان کا اکرام و احترام ضروری چیز ہے روئے زمین پر ان سے زیادہ پاک اور صاف ستھرا گھرانا اور نہیں حسب و نسب میں اور فخر و مباہات میں بلا شک یہ سب سے اعلیٰ ہیں۔ بالخصوص ان میں سے وہ جو متبع سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں جیسے کہ اسلاف کی روش تھی یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور آل عباس رضی اللہ عنہ کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آل علی رضی اللہ عنہ کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا ہے میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوض پر میرے پاس نہ آئیں۔ [صحیح مسلم:2408]
مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ قریشی جب آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ لیکن ہم سے اس ہنسی خوشی کے ساتھ نہیں ملتے۔ یہ سن کر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کسی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اللہ کے لیے اور اس کے رسول کی وجہ سے تم سے محبت نہ رکھے۔ [سنن ترمذي:3758،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا قریشی باتیں کرتے ہوتے ہیں ہمیں دیکھ کر چپ ہو جاتے ہیں اسے سن کر مارے غصے کے آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور فرمایا واللہ! کسی مسلمان کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہو گا جب تک کہ وہ تم سے اللہ کے لیے اور میری قرابت داری کی وجہ سے محبت نہ رکھے۔ [مسند احمد:207/1:ضعیف]
صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں رکھو۔ [صحیح بخاری:3713]
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے سلوک سے بھی پیارا ہے۔ [صحیح بخاری:3712]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا واللہ تمہارا اسلام لانا مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے بھی زیادہ اچھا لگا اس لیے کہ تمہارا اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب تھا۔ پس اسلام کے ان دو چمکتے ستاروں کا مسلمانوں کے ان دونوں سیدوں کا جو معاملہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقربا پیغمبر کے ساتھ تھا وہی عزت و محبت کا معاملہ مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور قرابت داروں سے رکھنا چاہیئے۔ کیونکہ نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام دنیا سے افضل یہی دونوں بزرگ خلیفہ رسول تھے رضی اللہ عنہما۔ پس مسلمانوں کو ان کی پیروی کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور کنبے قبیلے کے ساتھ جس عقیدت سے پیش آنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں خلیفہ سے اہل بیت سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کل صحابہ رضی اللہ عنہم سے خوش ہو جائے اور سب کو اپنی رضا مندی میں لے لے۔ آمین۔
صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ یزید بن حیان اور حصین بن میسرہ اور عمر بن مسلم رحمہ اللہ علیہم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے حصین نے کہا: اے حضرت! آپ کو تو بڑی بڑی خیر و برکت مل گئی، آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا آپ نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں، حق تو یہ ہے کہ بڑی بڑی فضیلتیں آپ نے سمیٹ لیں، اچھا اب کوئی حدیث ہمیں بھی بتائیے۔ اس پر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے بھتیجے سنو، میری عمر اب بڑی ہو گئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کو عرصہ گزر چکا بعض چیزیں ذہن میں محفوظ نہیں رہیں اب تو یہی رکھو کہ جو از خود سنا دوں اسے مان لیا کرو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو کہ تکلف سے بیان کرنا پڑے، پھر آپ نے فرمایا کہ مکے اور مدینے کے درمیان پانی کی جگہ کے پاس جسے خم کہا جاتا تھا کھڑے ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا اللہ کی حمد و ثنا کی وعظ و پند کیا پھر فرمایا: لوگو! میں ایک انسان ہوں کیا عجب کہ ابھی ابھی میرے پاس اللہ کا قاصد پہنچ جائے اور میں اس کی مان لوں سنو میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک تو کتاب اللہ جس میں نور و ہدایت ہے تم اللہ کی کتاب کو مضبوط تھام لو اور اس کو مضبوطی سے تھامے رہو پس اس کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تاکید کی پھر فرمایا اے میرے اہل بیت میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں یہ سن کر حصین رحمہ اللہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے زید! آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں؟ فرمایا بیشک آپ کی بیویاں وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے پوچھا وہ کون ہیں؟ فرمایا آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس رضی اللہ عنہم پوچھا کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ فرمایا ہاں! [صحیح مسلم:4208]
ترمذی شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط تھامے رہے تو بہکو گے نہیں ایک دوسرے سے زیادہ عظمت والی ہے کتاب اللہ جو اللہ کی طرف سے ایک لٹکائی ہوئی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آئی ہے اور دوسری چیز میری عترت میرے اہل بیت ہے اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں۔ پس دیکھ لو کہ میرے بعد کس طرح ان میں میری جانشینی کرتے ہو؟ [سنن ترمذي:3788، قال الشيخ الألباني:صحیح ] امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور صرف ترمذی میں ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ترمذی میں ہے کہ عرفے والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر جسے قصواء کہا جاتا تھا خطبہ دیا جس میں فرمایا لوگو میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت۔ [سنن ترمذي:3786، قال الشيخ الألباني:صحیح]
ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مدنظر رکھ کر تم لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میری اہل بیت سے محبت رکھو۔ [سنن ترمذي:3789، قال الشيخ الألباني:ضعیف]
یہ حدیث اور اوپر کی حدیث حسن غریب ہے اس مضمون کی اور احادیث ہم نے آیت: «اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا»[ 33- الأحزاب: 33 ] کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں یہاں ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
ایک ضعیف حدیث مسند ابو یعلیٰ میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا تھامے ہوئے فرمایا لوگو جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں جو نہیں پہچانتے وہ اب پہچان کر لیں کہ میرا نام ابوذر ہے سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال مثل نوح علیہ السلام کی کشتی کے ہے اس میں جو چلا گیا اس نے نجات پالی اور جو اس میں داخل نہ ہوا ہلاک ہوا۔ [مسند ابویعلیٰ:ضعیف]
پھر فرماتا ہے جو نیک عمل کرے ہم اس کا ثواب اور بڑھا دیتے ہیں جیسے ایک اور آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر ظلم نہیں کرتا اگر نیکی ہو تو اور بڑھا دیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے بعض سلف کا قول ہے کہ نیکی کا ثواب اس کے بعد نیکی ہے اور برائی کا بدلہ اس کے بعد برائی ہے پھر فرمان ہوا کہ اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے اور نیکیوں کی قدر دانی کرنے والا ہے انہیں بڑھا چڑھا کر دیتا ہے۔