یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ ” قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے “۔
جیسے فرمان ہے «وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا» [19-مريم:86] یعنی ” گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے “۔
انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا، اس وقت یہ اپنے اعضاء کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے، کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہرچیز کو زبان عطا فرمائی ہے۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کر سکتا ہے؟
مسند بزار میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا: تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ”فرمایئے کیا وجہ ہے“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا۔ کہے گا کہ ”اے اللہ! کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا“؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ ”میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا۔“ اللہ فرمائے گا ” کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے “؟ لیکن پھر بھی وہ باربار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو۔ جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ ”میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا“۔ [صحیح مسلم:2969]
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا؟ یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضاء بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی۔“[ابن ابی حاتم]
ابو یعلیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں “۔ یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں۔ فرمائے گا ” یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں “۔ کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں۔ اللہ ان سے قسم دلوائے گا، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا۔ سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کر دیا جائے گا ۔
ابن ابی حاتم میں ہے ابن عباس فرماتے ہیں ”قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہو گا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہو گی نہ عذر معذرت کرنے کی۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہو جائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہو جائے گا۔“
ابن ابی حاتم میں رافع ابوالحسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ”اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہو جائے گی کہ بولا نہ جائے گا۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہو گا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتا دے گا کان، آنکھ، کھال، شرمگاہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ۔“
اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورۃ یٰسین کی آیت «اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ»[36-يس:65] ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔
ابن ابی حاتم میں ہے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے پوچھا تم نے حبشہ کی سر زمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لیے ہوئے آ رہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا۔ وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہو گا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے؟ [تفسیر ابن ابی حاتم:18457:] یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے، جب یہ اپنے اعضاء کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کر دیا اور آج کے دن تم برباد ہو گئے۔
مسلم ترمذی وغیرہ میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا۔ دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہو گا۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت «وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ»[41-فصلت:22] ، نازل ہوئی ۔ [صحیح بخاری:4817]
مسند عبد الرزق میں ہے منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے کہ ” میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں “۔
حسن رحمہ اللہ اتنا فرما کر کچھ تامل کر کے فرمانے لگے ”جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔“[نسائی فی السنن الکبری:11469:حسن]
مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہ و بالا کر دیا۔ پھر یہی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ۔ [مسند احمد:390/3:حدیث صحیح وهذا اسناد ضعیف]
آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بے صبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند جیسے اور جگہ ہے «قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ»[23-المؤمنون:106-108] ” جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بدبختی چھا گئی۔ یقیناً ہم بے راہ تھے۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا “۔ لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ ” اب یہ منصوبے بےسود ہیں۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی “۔