تفسير ابن كثير



اللہ علیم پر ہر چیز ظاہر ہے ٭٭

«‏‏‏‏الْآزِفَةِ» قیامت کا ایک نام ہے۔ اس لیے وہ بہت ہی قریب ہے جیسے فرمان ہے «اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ» ‏‏‏‏ [ 53- النجم: 57 ] ‏‏‏‏، یعنی قریب آنے والی قریب ہو چکی ہے، جس کا کھولنے والا بجز اللہ کے کوئی نہیں اور جگہ ارشاد ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» [ 54- القمر: 1 ] ‏‏‏‏، قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمان ہے «اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ» [ 21- الأنبياء: 1 ] ‏‏‏‏ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور فرمان ہے «أَتَىٰ أَمْرُ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ» [ 16-النحل: 1 ] ‏‏‏‏ اللہ کا امر آ چکا اس میں جلدی نہ کرو اور آیت میں ہے «‏‏‏‏فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقِيْلَ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ» [ 67- الملك: 27 ] ‏‏‏‏ جب اسے قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے۔

الغرض اسی نزدیکی کی وجہ سے قیامت کا نام «ازِفَةِ» ہے۔ اس وقت کلیجے منہ کو آ جائیں گے۔ وہ خوف و ہراس ہو گا کہ کسی کا دل ٹھکانے نہ رہے گا۔ سب پر غضب کا سناٹا ہو گا۔ کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلے گی۔ کیا مجال کہ بے اجازت کوئی لب ہلا سکے۔ سب رو رہے ہوں گے اور حیران و پریشان ہوں گے۔

جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کا آج کوئی دوست غمگسار نہ ہو گا جو انہیں کام آئے۔ نہ شفیع اور سفارشی ہو گا جو ان کی شفاعت کے لیے زبان ہلائے۔ بلکہ ہر بھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں گے، اس اللہ کا علم محیط کل ہے۔ تمام چھوٹی بڑی چھپی کھلی باریک موٹی اس پر یکساں ظاہر باہر ہیں، اتنے بڑے علم والے سے جس سے کوئی چیز مخفی نہ ہو ہر شخص کو ڈرنا چاہیئے اور کسی وقت یہ خیال نہ کرنا چاہیئے کہ اس وقت وہ مجھ سے پوشیدہ ہے اور میرے حال کی اسے اطلاع نہیں۔ بلکہ ہر وقت یہ یقین کر کے وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس کا علم میرے ساتھ ہے اس کا لحاظ کرتا رہے اور اس کے رو کے ہوئے کاموں سے رکا رہے۔ آنکھ جو خیانت کے لیے اٹھتی ہے گو بظاہر وہ امانت ظاہر کرے۔ لیکن رب علیم پر وہ مخفی نہیں سینے کے جس گوشے میں جو خیال چھپا ہو اور دل میں جو بات پوشیدہ اٹھتی ہو اس کا اسے علم ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ شخص ہے جو مثلاً کسی گھر میں گیا وہاں کوئی خوبصورت عورت ہے یا وہ آ جا رہی ہے یا تو یہ کن اکھیوں سے اسے دیکھتا ہے جہاں کسی کی نظر پڑی تو نگاہ پھیرلی اور جب موقعہ پایا آنکھ اٹھا کر دیکھ لیا پس خائن آنکھ کی خیانت کو اور اس کے دل کے راز کو اللہ علیم خوب جانتا ہے کہ اس کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پوشیدہ عضو بھی دیکھ لے۔ حضرت ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد آنکھ مارنا اشارے کرنا اور بن دیکھی چیز کو دیکھی ہوئی یا دیکھی ہوئی چیز کو ان دیکھی بتانا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ نگاہ جس نیت سے ڈالی جائے اللہ پر روشن ہے۔ پھر سینے میں چھپا ہوا خیال کہ اگر موقعہ ملے اور بس ہو تو آیا یہ بدکاری سے باز رہے گا یا نہیں۔ یہ بھی وہ جانتا ہے۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں دلوں کے وسوسوں سے وہ آگاہ ہے، وہ عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے قادر ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی دے اور برائی کی سزا بری دے۔ وہ سننے دیکھنے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ وہ بروں کو ان کی کرنے کی سزا اور بھلوں کو ان کی بھلائی کی جزا عنایت فرمائے گا۔

جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں خواہ وہ بت اور تصویریں ہوں خواہ اور کچھ وہ چونکہ کسی چیز کے مالک نہیں ان کی حکومت ہی نہیں تو حکم اور فیصلے کریں گے ہی کیا؟ اللہ اپنی مخلوق کے اقوال کو سنتا ہے۔ ان کے احوال کو دیکھ رہا ہے جسے چاہے راہ دکھاتا ہے جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اس کا اس میں بھی سرا سر عدل و انصاف ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.