مشرکین نے دراصل اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت جانی ہی نہیں اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے، اس سے بڑھ کر عزت والا اس سے زیادہ بادشاہت والا اس سے بڑھ کر غلبے اور قدرت والا کوئی نہیں، نہ کوئی اس کا ہمسر اور نہ برابری کرنے والا ہے۔ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انہیں اگر قدر ہوتی تو اس کی باتوں کو غلط نہ جانتے۔ جو شخص اللہ کو ہرچیز پر قادر مانے، وہ ہے جس نے اللہ کی عظمت کی اور جس کا یہ عقیدہ نہ ہو وہ اللہ کی قدر کرنے والا نہیں۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ اس جیسی آیتوں کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہی رہا ہے کہ جس طرح اور جن لفظوں میں یہ آئی ہے اسی طرح انہی لفظوں کے ساتھ انہیں مان لینا اور ان پر ایمان رکھنا۔ نہ ان کی کیفیت ٹٹولنا نہ ان میں تحریف و تبدیلی کرنا۔
صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم یہ لکھا پاتے ہیں کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور سب زمینوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور درختوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر رکھ لے گا پھر فرمائے گا ” میں ہی سب کا مالک اور سچا بادشاہ ہوں “۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات کی سچائی پر ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسوڑھے ظاہر ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ [صحیح بخاری:4811]
مسند کی حدیث بھی اسی کے قریب ہے اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ [صحیح بخاری:7415]
اور روایت میں ہے کہ وہ اپنی انگلیوں پر بتاتا جاتا تھا پہلے اس نے کلمے کی انگلی دکھائی تھی ۔ اس روایت میں چار انگلیوں کا ذکر ہے۔ [سنن ترمذي:3240،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
صحیح بخاری شریف میں ہے اللہ تعالیٰ زمین کو قبض کر لے گا اور آسمان کو اپنی داہنی مٹھی میں لے لے گا۔ پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟[صحیح بخاری:4812]
مسلم کی اس حدیث میں ہے کہ زمینیں اس کی ایک انگلی پر ہوں گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے پھر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں ۔ [صحیح مسلم:2787]
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ ہلاتے جاتے آگے پیچھے لا رہے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی آپ بیان فرمائے گا کہ ” میں جبار ہوں میں متکبر ہوں میں مالک ہوں میں باعزت ہوں میں کریم ہوں “۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بیان کے وقت اتنا ہل رہے تھے کہ ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سمیت گر نہ پڑیں ۔ [مسند احمد:72/2:صحیح]
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی پوری کیفیت دکھا دی کہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکایت کیا تھا؟ کہ اللہ تبارک و آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا ” میں بادشاہ ہوں “۔ اپنی انگلیوں کو کبھی کھولے گا کبھی بند کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہل رہے تھے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہلنے سے سارا منبر ہلنے لگا اور مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا نہ دے ۔ [صحیح مسلم:2788]
بزار کی رویت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور منبر ہلنے لگا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ آئے گئے ۔ [طبرانی کبیر:13321:ضعیف] «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
معجم کبیر طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے فرمایا: میں آج تمہیں سورۃ الزمر کی آخری آیتیں سناؤں گا جسے ان سے رونا آ گیا وہ جنتی ہو گیا ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت سے لے کر ختم سورۃ تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں بعض روئے اور بعض کو رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہر چند رونا چاہا لیکن رونا نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا میں پھر پڑھوں گا جسے رونا نہ آئے وہ رونی شکل بنا کر بہ تکلف روئے۔ [طبرانی کبیر:2459:ضعیف]
ایک اس سے بڑھ کر غریب حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تین چیزیں اپنے بندوں میں چھپالی ہیں اگر وہ انہیں دیکھ لیتے تو کوئی شخص کبھی کوئی بدعملی نہ کرتا۔
[ ١ ] اگر میں پردہ ہٹا دیتا اور وہ مجھے دیکھ کر خوب یقین کر لیتے اور معلوم کر لیتے کہ میں اپنی مخلوق کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہوں جبکہ ان کے پاس آؤں اور آسمانوں کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر اپنی زمین کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر کہوں میں بادشاہ ہوں میرے سوا ملک کا مالک کون ہے؟
[ ٢ ] پھر میں انہیں جنت دکھاؤں اور اس میں جو بھلائیاں ہیں سب ان کے سامنے کر دوں اور وہ یقین کے ساتھ خوب اچھی طرح دیکھ لیں۔
[ ٣ ] اور میں انہیں جہنم دکھا دوں اور اس کے عذاب دکھا دوں یہاں تک کہ انہیں یقین آ جائے۔ لیکن میں نے یہ چیزیں قصداً ان سے پوشیدہ کر رکھی ہیں۔ تاکہ میں جان لوں کہ وہ مجھے کس طرح جانتے ہیں کیونکہ میں نے یہ سب باتیں بیان کر دی ہیں ۔ [طبرانی کبیر:2447:ضعیف و منقطع]
اس کی سند متقارب ہے اور اس نسخے سے بہت سی حدیثیں روایت کی جاتی ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔