اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لیے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہو چکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہو گا؟ اس پر آیت «وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا»[25-الفرقان:68] ، یہ اور آیت نازل ہوئی ۔ [صحیح بخاری:4810]
مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں مجھے ساری دنیا اور اس کی ہرچیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے ۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا: خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا ۔ [مسند احمد:275/5:ضعیف]
مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا؟ اس نے کہا ہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں ۔ [مسند احمد:385/4:صحیح بالشواهد]
ابوداؤد ترمذی وغیرہ میں ہے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ اس آیت کی تلاوت اسی طرح فرما رہے تھے «اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ»[11-ھود:46] اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا «قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ» [39-الزمر:53] ۔ [مسند احمد:454/6:ضعیف]
پس ان تمام احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہیئے۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ» [9-التوبة:104] ” کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے “۔
اور فرمایا «وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا»[4-النساء:110] ، ” جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا “۔
منافقوں کی سزا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہو گی اسے بیان فرما کر بھی فرمایا «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّـهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا»[4-النساء:145-146] یعنی ” ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو توبہ کریں اور اصلاح کر لیں “۔
مشرکین نصاریٰ کے اس شرک کا کہ وہ اللہ کو تین میں کا تیسرا مانتے ہیں ذکر کر کے ان کی سزاؤں کے بیان سے پہلے فرما دیا «وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ»[5-المائدة:73] کہ ” اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو “۔ پھر اللہ تعالیٰ عظمت و کبریائی جلال و شان والے نے فرمایا «أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّـهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»[5-المائدة:74] ” یہ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے اور کیوں اس سے استغفار نہیں کرتے؟ وہ تو بڑا ہی غفور و رحیم ہے “۔
ان لوگوں کا جنہوں نے خندقیں کھود کر مسلمانوں کو آگ میں ڈالا تھا ذکر کرتے ہوئے بھی فرمایا ہے کہ ” جو مسلمان مرد عورتوں کو تکلیف پہنچا کر پھر بھی توبہ نہ کریں ان کیلئے عذاب جہنم اور عذاب نار ہے “۔
امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”اللہ کے کرم و جود کو دیکھو کہ اپنے دوستوں کے قاتلوں کو بھی توبہ اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے۔“ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کیلئے بھی توبہ ہے؟ اس نے انکار کیا اس نے اسے بھی قتل کر دیا۔ پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا چنانچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی موت آ گئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی جس طرف وہ ہجرت کر کے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے۔ یہ بھی مذکور ہے کہ وہ موت کے وقت سینے کے بل اس طرف گھسیٹتا ہوا چلا تھا۔ اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہو جانے کا اور برے لوگوں کی بستی کے دور ہو جانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا ۔ [صحیح بخاری:3470] یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ، پوری حدیث اپنی جگہ بیان ہو چکی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ”اللہ عزوجل نے تمام بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلایا ہے انہیں بھی جو مسیح علیہ السلام کو اللہ کہتے تھے، انہیں بھی جو آپ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے، انہیں بھی جو عزیز علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے، انہیں بھی جو اللہ کو فقیر کہتے تھے، انہیں بھی جو اللہ کے ہاتھوں کو بند بتاتے تھے، انہیں بھی جو اللہ تعالیٰ کو تین میں کا تیسرا کہتے تھے، اللہ تعالیٰ ان سب سے فرماتا ہے کہ ” یہ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں چاہتے؟ اللہ تو بڑی بخشش والا اور بہت ہی رحم و کرم والا ہے “۔ پھر توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ نے اسے دی جس کا قول ان سب سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں۔ جو کہتا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ تمہارا کوئی معبود میرے سوا ہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”اس کے بعد بھی جو شخص اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے، وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا منکر ہے۔ لیکن اسے سمجھ لو کہ جب تک اللہ کسی بندے پر اپنی مہربانی سے رجوع نہ فرمائے اسے توبہ نصیب نہیں ہوتی۔“
طبرانی میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کتاب اللہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» الخ [2-البقرہ:255] آیت الکرسی ہے اور خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت «إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ»[16-النحل:90] ہے اور سارے قرآن میں سب سے زیادہ خوشی کی آیت سورۃ الزمر کی «قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ»[39-الزمر:53] ہے اور سب سے زیادہ ڈھارس دینے والی آیت «وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ»[65-الطلاق:3-2] ہے، یعنی ” اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کی مخلصی خود اللہ کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں کا اسے خیال و گمان بھی نہ ہو “۔ مسروق رحمہ اللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بیشک آپ رضی اللہ عنہ سچے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جا رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ”تو کیوں لوگوں کو مایوس کر رہا ہے؟ پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔“[تفسیر ابن ابی حاتم]
(ان احادیث کا بیان جن میں ناامیدی اور مایوسی کی ممانعت ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم خطائیں کرتے کرتے زمین و آسمان پر کر دو پھر اللہ سے استغفار کرو تو یقیناً وہ تمہیں بخش دے گا۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کر کے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کر کے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے ۔ [مسند احمد:238/3:صحیح لغیره]
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اپنے انتقال کے وقت فرماتے ہیں ایک حدیث میں نے تم سے آج تک بیان نہیں کی تھی اب بیان کر دیتا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ عزوجل ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا ۔ [صحیح مسلم:2748]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گناہ کا کفارہ ندامت اور شرمساری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں پھر وہ انہیں بخشے ۔ [مسند احمد:279/1:اسنادہ ضعیف]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو کامل یقین رکھنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو ۔ [مسند احمد:80/1:ضعیف]
عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”ابلیس ملعون نے کہا اے میرے رب! تو نے مجھے آدم علیہ السلام کی وجہ سے جنت سے نکالا ہے اور میں اس پر اس کے بغیر کہ تو مجھے اس پر غلبہ دے غالب نہیں آسکتا۔“ جناب باری نے فرمایا ” جا تو ان پر مسلط ہے “۔ اس نے کہا ”اللہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عطا فرما۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” جا بنی آدم میں جتنی اولاد پیدا ہو گی اتنی ہی تیرے ہاں بھی ہو گی “۔ اس نے پھر التجا کی باری تعالیٰ کچھ اور بھی مجھے زیادتی دے۔ پروردگار عالم نے فرمایا ” بنی آدم کے سینے میں تیرے لیے مسکن بنا دوں گا اور تم ان کے جسم میں خون کی جگہ پھرو گے “، اس نے پھر کہا کہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” جا تو ان پر اپنے سوار اور پیادے دوڑا، اور ان کے مال و اولاد میں اپنا ساجھا کر اور انہیں امنگیں دلا “۔ گو حقیقتاً تیرا امنگیں دلانا اور وعدے کرنا سراسر دھوکے کی ٹٹی ہیں۔“
اس وقت آدم علیہ السلام نے دعا کی کہ ”اے میرے پروردگار تو نے اسے مجھ پر مسلط کر دیا اب میں اس سے تیرے بچائے بغیر بچ نہیں سکتا۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” سنو تمہارے ہاں جو اولاد ہو گی اس کے ساتھ میں ایک محافظ مقرر کردوں گا جو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھے “۔ آدم علیہ السلام نے اور زیادتی طلب کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ایک نیکی کو دس گنا کر کے دوں گا بلکہ دس سے بھی زیادہ اور برائی اسی کے برابر رہے گی یا معاف کر دوں گا “۔ آپ علیہ السلام نے پھر بھی اپنی یہی دعا جاری رکھی۔ رب العزت نے فرمایا ” توبہ کا دروازہ تمہارے لیے اس وقت تک کھلا ہے جب تک روح جسم میں ہے “، آدم نے دعا کی اللہ مجھے اور زیادتی بھی عطا فرما۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی کہ ” میرے گنہگار بندوں سے کہہ دو وہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں “۔ [ابن ابی حاتم]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ بوجہ اپنی کمزوری کے کفار کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین میں فتنے میں پڑ گئے ہم اس کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی نیکی اور توبہ قبول نہ فرمائے گا ان لوگوں نے اللہ کو پہچان کر پھر کفر کو لے لیا اور کافروں کی سختی کو برداشت نہ کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ہمارے اس قول کی تردید کر دی اور «قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا» سے «وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ»(سورۂ الزمر آیات 53 تا 55) تک آیتیں نازل ہوئیں ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے ان آیتوں کو لکھا اور ہشام بن عاص رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا
ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اس وقت ذی طویٰ میں تھا میں انہیں پڑھ رہا تھا اور باربار پڑھتا جاتا تھا اور خوب غور و خوض کر رہا تھا لیکن اصلی مطلب تک ذہن رسائی نہیں کرتا تھا۔ آخر میں نے دعا کی کہ پروردگار ان آیتوں کا صحیح مطلب اور ان کو میری طرف بھیجے جانے کا صحیح مقصد مجھ پر واضح کر دے۔ چنانچہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالا گیا کہ ان آیتوں سے مراد ہم ہی ہیں یہ ہمارے بارے میں ہیں اور ہمیں جو خیال تھا کہ اب ہماری توبہ قبول نہیں ہو سکتی اسی بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اسی وقت میں واپس مڑا اپنا اونٹ لیا اس پر سواری کی اور سیدھا مدینے میں آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۔ [سیرۃ ابن اسحاق]
بندوں کی مایوسی کو توڑ کر انہیں بخشش کی امید دلا کر پھر حکم دیا اور رغبت دلائی کہ ” وہ توبہ اور نیک عمل کی طرف سبقت اور جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ اللہ کے عذاب آ پڑیں “۔
جس وقت کہ کسی کی مدد کچھ کام نہیں آتی اور انہیں چاہیئے کہ عظمت والے قرآن کریم کی تابعداری اور ماتحتی میں مشغول ہو جائیں اس سے پہلے کہ اچانک عذاب آئیں اور یہ بے خبری میں ہی ہوں، اس وقت قیامت کے دن بے توبہ مرنے والے اور اللہ کی عبادت میں کمی لانے والے بڑی حسرت اور بہت افسوس کریں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم خلوص کے ساتھ احکام اللہ بجا لاتے۔ افسوس! کہ ہم تو بےیقین رہے۔ اللہ کی باتوں کی تصدیق ہی نہ کی بلکہ ہنسی مذاق ہی سمجھتے رہے اور کہیں گے کہ اگر ہم بھی ہدایت پالیتے تو یقیناً رب کی نافرمانیوں سے دنیا میں اور اللہ کے عذاب سے آخرت میں بچ جاتے اور عذاب کو دیکھ کر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر اب دوبارہ دنیا کی طرف جانا ہو جائے تو دل کھول کر نیکیاں کرلیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”بندے کیا عمل کریں گے اور کیا کچھ وہ کہیں گے، ان کے عمل اور ان کے قول سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دیدی اور فی الواقع اس سے زیادہ باخبر کون ہوسکتا ہے؟ نہ اس سے زیادہ سچی خبر کوئی دے سکتا ہے۔“
بدکاروں کے یہ تینوں قول بیان فرمائے اور دوسری جگہ یہ خبر دیدی کہ ” اگر یہ واپس دنیا میں بھیجے جائیں تو بھی ہدایت کو اختیار نہ کریں گے، بلکہ جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کرنے لگیں گے اور یہاں جو کہتے ہیں سب جھوٹ نکلے گا “۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے ہر جہنمی کو اس کی جنت کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کاش کہ اللہ مجھے ہدایت دیتا۔ یہ اس لیے کہ اسے حسرت و افسوس ہو۔ اور اسی طرح ہر جنتی کو اس کی جہنم کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دیتا تو وہ جنت میں نہ آسکتا۔ یہ اس لیے کہ وہ شکر اور احسان کے ماننے میں اور بڑھ جائے ۔ [مسند احمد:512/2:صحیح]
جب گنہگار لوگ دنیا کی طرف لوٹنے کی آرزو کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہ کرنے کی حسرت کریں گے اور اللہ کے رسولوں کو نہ ماننے پر کڑھنے لگیں گے تو اللہ سبحان و تعالیٰ فرمائے گا کہ ” اب ندامت لاحاصل ہے پچھتاوا بےسود ہے دنیا میں ہی میں تو اپنی آیتیں اتار چکا تھا۔ اپنی دلیلیں قائم کر چکا تھا، لیکن تو انہیں جھٹلاتا رہا اور ان کی تابعداری سے تکبر کرتا رہا، ان کا منکر رہا۔ کفر اختیار کیا، اب کچھ نہیں ہوسکتا “۔