اللہ تعالیٰ تمام لوگوں سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ ” تم المناک عذاب چکھنے والے ہو۔ اور صرف اسی کا بدلہ دئیے جانے والے ہو جسے تم نے کیا دھرا ہے “۔ پھر اپنے مخلص بندوں کو اس سے الگ کر لیتا ہے جیسے «وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ» [103-العصر:1-3] میں فرمایا کہ ” تمام انسان گھاٹے میں ہیں۔ مگر ایماندار نیک اعمال “۔
اور سورۃ والتین میں فرمایا «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ»[95-التين:4-6] ” ہم نے انسان کو بہت اچھی پیدائش میں پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کر دیا مگر جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے “۔
اور سورۃ مریم میں فرمایا «وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا»[19-مريم:71-72] ، ” تم میں سے ہر ایک جہنم پروارد ہونے والا ہے یہ تو تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے لیکن پھر ہم متقیوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں گرے پڑے چھوڑ دیں گے “۔
سورۃ المدثر میں ارشاد ہوا ہے «كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ» [74-المدثر:38-39] ، ” ہر شخص اپنے اپنے اعمال میں مشغول ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آ چکا ہے “۔
اسی طرح یہاں پر بھی اپنے خاص بندوں کا استثناء کر لیا کہ وہ المناک عذابوں سے حساب کے پھنساوے سے الگ ہیں بلکہ ان کی برائیوں سے درگذر فرمایا گیا ہے اور ان کی نیکیاں بڑھا چڑھا کر ایک کی دس دس گنی بلکہ سات سات سو گنی کر کے بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر انہیں دی گئی ہیں۔
ان کے لیے مقررہ روزی اور وہ قسم قسم کے میوہ جات ہیں۔ وہ مخدوم ہیں، ذی عزت ہیں، ذی اکرام ہیں، ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں، بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے، بڑا ادب لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہ نعمتوں سے پر جنتوں میں ہیں۔ وہاں کے تختوں پر اس طرح بیٹھے ہیں کہ کسی کی پیٹھ کسی کی طرف نہیں۔
ایک مرفوع غریب حدیث میں بھی ہے کہ اس آیت کی تلاوت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک کی نگاہیں دوسرے کے چہرے پر پڑیں گی، آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے ۔ [التاریخ الکبیر للبخاری:386/3:ضعیف] اس شراب کے دور ان میں چل رہے ہوں گے جو جاری ہے جس کے ختم ہو جانے کم ہو جانے کامطلق اندیشہ نہیں۔ جو ظاہر باطن میں آراستہ ہے خوبیاں ہیں برائیاں نہیں۔ رنگ کی سفید مزے کی بہت اچھی لذیذ۔ نہ اس کے پینے سے سردرد ہو نہ بک جھک لگے، دنیا کی شراب میں یہ آفتیں تھیں پیٹ کا درد سر کا درد بیہوشی بد حواسی وغیرہ لیکن جنت کی شراب میں ان میں سے ایک برائی بھی موجود نہیں رہی۔ دیکھنے میں خوش رنگ، پینے میں لذیذ، فوائد میں اعلیٰ، سرور و کیف میں عمدہ لیکن سدھ بدھ دور کر دینے والی بد مست بنادینے والی نہیں، نہ بدبودار نہ بد نظر نہ قابل نفرت۔ بلکہ خوشبودار خوش رنگ خوش ذائق خوش فائدہ، اس کے پینے سے پیٹ میں درد نہیں ہوتا اور اس کی کثرت ضرر رساں نہیں خلاف طبع نہیں۔ سربھاری نہیں ہو جاتا چکر نہیں آتے گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ ہوش و حواس جاتے نہیں رہتے۔ کوئی ایذاء تکلیف قے متلی نہیں ہوتی ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”دنیا کی شراب میں چار برائیاں ہیں، نشہ، سردرد، قے اور پیشاب۔ جنت کی شراب ان تمام برائیوں سے پاک ہے دیکھ لو سورۃ الصافات۔“
ان کے پاس نیچی نگاہوں والی شرمیلی نظروں والی پاک دامن عفیفہ حوریں ہیں جن کی نگاہ اپنے خاوندوں کے چہرے کے سوا کبھی کسی کے چہرے پر نہیں پڑتی اور نہ پڑیں گی۔ بڑی بڑی موٹی موٹی رسیلی آنکھیں ہیں حسن صورت حسن سیرت دونوں چیزیں ان میں موجود ہیں۔
جس طرح زلیخا نے یوسف علیہ السلام میں یہ دونوں خوبیاں دیکھیں۔ عورتوں نے جب انہیں طعنے دینے شروع کئے تو ایک دن سب کو بلا کر بٹھالیا اور یوسف کا پورا بناؤ سنگھار کرا کر بلایا عورتوں کی نگاہیں ان کے جمال کو دیکھ کر خیرہ ہو گئیں اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو فرشتہ ہیں۔ اسی وقت کہا یہی تو ہیں جن کے بارے میں تم سب مجھے ملامت کر رہی تھیں واللہ میں نے ان کو ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ پاک دامن ہی رہا۔ یہ باوجود جمال ظاہری کے حسن باطنی بھی رکھتا ہے۔ بڑا پاکباز امین پارسا متقی پرہیزگار ہے۔ اسی طرح حوریں ہیں کہ جمال ظاہری کے ساتھ ہی باطنی خوبی بھی اپنے اندر رکھتی ہیں۔
پھر ان کا مزید حسن بیان ہو رہا ہے کہ ان کا گورا گورا جسم اور بھبوکا سا رنگ ایسا چمکیلا دلکش اور جاذب نظر ہے کہ گویا محفوظ موتی۔ جس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچا ہو، جو سیپ سے نہ نکلا ہو جسے زمانے کی ہوا نہ لگی ہو جو اپنی آبداری میں بیمثل ہو ایسے ہی ان کے اچھوتے جسم ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ گویا وہ انڈے کی طرح ہیں۔ انڈے کے اوپر کے چھلکے کے نیچے چھوٹے چھلکے جیسے ان کے بدن ہیں۔
ایک حدیث میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حور عین سے مراد بہت بڑی آنکھوں والی سیاہ پلکوں والی حوریں ہیں ۔ پھر پوچھا بیض مکنون سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: انڈے کے اندر کی سفید جھلی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:29376:ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں کھڑا کیا جاؤں گا اور جبکہ وہ جناب باری میں پیش ہوں گے تو میں ان کا خطیب بنوں گا اور جب وہ غمگین ہو رہے ہوں گے تو میں انہیں خوشخبریاں سنانے والا ہوں گا اور ان کا سفارشی بنوں گا جب کہ یہ رکے ہوئے ہوں گے۔ حمد کا جھنڈا اس دن میرے ہاتھ میں ہو گا۔ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں اکرام و عزت والا میں ہوں یہ میں بطور فخر کے نہیں کہہ رہا۔ میرے آگے پیچھے قیام کے دن ایک ہزار خادم گھوم رہے ہوں گے جو مثل چھپے ہوئے انڈوں یا اچھوت موتیوں کے ہوں گے ۔ [التفریب:138/2:ضعیف] «وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ» ۔