انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے پیری، ضعیفی، کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے، جیسے سورۃ الروم کی آیت میں ہے۔ «اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ»[ 30- الروم: 54 ] ، اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا۔ پھر ناتوانی کے بعد طاقت عطا فرمائی پھر طاقت و قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ خوب جاننے والا پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ اور آیت میں ہے «وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا»[ 22-الحج: 5 ] ہم تم میں سے بعض بہت بڑی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تاکہ علم کے بعد وہ بےعلم ہو جائیں۔ پس مطلب آیت سے یہ ہے کہ دنیا زوال اور انتقال کی جگہ ہے یہ پائیدار اور قرار گاہ نہیں، پھر بھی کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے کہ اپنے بچپن، پھر جوانی، پھر بڑھاپے پر غور کریں اور اس سے نتیجہ نکال لیں کہ اس دنیا کے بعد آخرت آنے والی ہے اور اس زندگی کے بعد میں دوبارہ پیدا ہونا ہے۔
پھر فرمایا نہ تو میں نے اپنے پیغمبر کو شاعری سکھائی نہ شاعری اس کے شایان شان نہ اسے شعر گوئی سے محبت نہ شعر اشعار کی طرف اس کی طبیعت کا میلان۔ اسی کا ثبوت آپ کی زندگی میں نمایاں طور پر ملتا ہے کہ کسی کاشعر پڑھتے تھے تو صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا تھا یا پورا یاد نہیں ہوتا تھا۔
حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولاد عبدالمطلب کا ہر مرد عورت شعر کہنا جانتا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کوسوں دور تھے۔ [ ابن اعساکر ]
ایک بار اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر پڑھا
كفى بالاسلام والشيب للمرء ناهيا
اس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نہیں بلکہ یوں ہے
كفى الشيب ولاسلام للمرء ناھیاًٍ
پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہی یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا سچ مچ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ نے سچ فرمایا [وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ ] ۔ «الدار المنثور للسیوطی:505/5،ضعیف»
دلائل بیہقی میں ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ سیدنا عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم نے بھی تو یہ شعر کہا ہے؟ «تجعل نھبی و نھب العبید، بین الاقرع و عینیتہ» انہوں نے کہایا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم دراصل یوں ہے «بین عینیتہ» والا قرع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چلو سب برابر ہے مطلب تو فوت نہیں ہوتا؟ صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔ [دلائل النبوۃ للبیهقی:179/5:مرسل]
سہیلی نے روض الانف میں اس تقدیم تاخیر کی ایک عجیب توجیہ کی ہے وہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع کو پہلے اور عیینہ کو بعد میں اس لیے ذکر کیا کہ عیینہ خلافت صدیقی میں مرتد ہو گیا تھا بخلاف اقرع کے کہ وہ ثابت قدم رہا تھا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مغازی میں ہے کہ بدر کے مقتول کافروں کے درمیان گشت لگاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا «نفلق ھاما»[ آگے کچھ نہ فرما سکے۔ اس پر جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پورا شعر پڑھ دیا ] ۔ «من رجال اعزۃ علینا وھم کانوا اعق واظلما» یہ کسی عرب شاعر کا شعر ہے جو حماسہ میں موجود ہے۔
مسند احمد میں ہے کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفہ کا یہ شعر بہت پڑھتے تھے ویاتیک بالا خبار من لم تزود اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے «ستبدی لک الا یام ما کنت جاہلا» یعنی زمانہ تجھ پر وہ امور ظاہر کر دے گا جن سے تو بیخبر ہے اور تیرے پاس ایسا شخص خبریں لائے گا جسے تو نے توشہ نہیں دیا،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال ہوا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شعر پڑھتے تھے، آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ بغض آپ کو شعروں سے تھا ہاں کبھی کبھی بنو قیس والے کا کوئی شعر پڑھتے لیکن اس میں بھی غلطی کرتے تقدیم تاخیر کر دیا کرتے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یوں نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے نہ شاعر ہوں نہ شعر گوئی میرے شایان شان ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:29229:مرسل و منقطع]
دوسری روایت میں شعر اور آگے پیچھے کا ذکر بھی ہے یعنی «ویاتیک بالا خبار مالم تذود» کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «من لم تزود الاخبار» پڑھا تھا، بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ پورا شعر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا زیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ پڑھ لیتے تھے۔ (بیہقی فی السنن الکبری [43/7] ضعیف)
صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھے۔ سو یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پڑھنا صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تھا۔ وہ اشعار یہ ہیں۔ «لاھم لو لاانت ما اھتدینا ولا تصدقناولاً صلینا فانذلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لا قینا ان الاولیٰ قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنتہ ابینا» حضور لفظ ابینا کو کھینچ کر پڑھتے اور سارے ہی بلند آواز سے پڑھتے، [صحیح بخاری:4104] ترجمہ ان اشعار کا یہ ہے کوئی غم نہیں اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے نہ صدقے دیتے اور نہ نمازیں پڑھتے۔ اب تو ہم پر تسکین نازل فرما۔ جب دشمنوں سے لڑائی چھڑ جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما، یہی لوگ ہم پر سرکشی کرتے ہیں ہاں جب کبھی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں اسی طرح ثابت ہے کہ حنین والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خچر کو دشمنوں کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا۔ «انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب»[صحیح بخاری:4315]
اس کی بابت یہ یاد رہے کہ اتفاقیہ ایک کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکل گیا جو وزن شعر پر اترا۔ نہ کہ قصداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر کہا،
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ «ھل انت الا اصبح دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت» یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے۔ اور تو راہ اللہ میں خون آلود ہوئی ہے۔ [صحیح بخاری:2802] یہ بھی اتفاقیہ ہے قصداً نہیں۔
اسی طرح ایک حدیث «إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ»[ 53- النجم: 32 ] کی تفسیر میں آئے گی کہ آپ نے فرمایا۔ «ان تغفر اللھم تغفر جما وای عبدلک ما الما» یعنی اے اللہ تو جب بخشے تو ہمارے سبھی کے سب گناہ بخش دے، ورنہ یوں تو تیرا کوئی بندہ نہیں جو چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے بھی پاک ہو پس یہ سب کے سب اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کی تعلیم آپ کو شعر گوئی کی نہ تھی۔ بلکہ رب العالمین نے تو آپ کو قرآن عظیم کی تعلیم دی تھی «لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ»[ 41-فصلت: 42 ] جس کے پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا۔ قرآن حکیم کی یہ پاک نظم شاعری سے منزلوں دور تھی۔ اسی طرح کہانت سے اور گھڑ لینے سے اور جادو کے کلمات سے جیسے کہ کفار کے مختلف گروہ مختلف بولیاں بولتے تھے۔ آپ کی تو طبیعت ان لسانی صنعتوں سے معصوم تھی۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک یہ تینوں باتیں برابر ہیں، تریاق کا پینا، گنڈے کا لٹکانا اور شعر بنانا۔ [سنن ابوداود:3869،قال الشيخ الألباني:ضعیف] صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں شعر گوئی سے آپ کو طبعاً نفرت تھی۔ دعا میں آپ کو جامع کلمات پسند آتے تھے اور اس کے سوا چھوڑ دیتے تھے۔ [مسند احمد:189/6:صحیح]
ترمذی میں ہے میں ہے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جانا اس کے لیے شعروں سے بھر لینے سے بہتر ہے۔ [سنن ترمذي:2852،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے جس نے عشاء کی نماز کے بعد کسی شعر کا ایک مصرع بھی باندھا اس کی اس رات کی نماز نامقبول ہے۔ [مسند احمد:125/4:ضعیف جدا] یہ یاد رہے کہ شعر گوئی کی قسمیں ہیں، مشرکوں کی ہجو میں شعر کہنے مشروع ہیں۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے اکابرین صحابہ نے کفار کی ہجو میں اشعار کے کلام میں ایسے اشعار پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ امیہ بن صلت کے اشعار کی بابت فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس کے شعر تو ایمان لا چکے ہیں لیکن اس کا دل کافر ہی رہا۔ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امیہ کے ایک سو بیت سنائے ہر بیت کے بعد آپ فرماتے تھے اور کہو۔ ابوداؤد میں حضور کا ارشاد ہے کہ بعض بیان مثل جادو کے ہیں اور بعض شعر سراسر حکمت والے ہیں۔ [سنن ابوداود:5010،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پس فرمان ہے کہ جو کچھ ہم نے انہیں سکھایا ہے وہ سراسر ذکر و نصیحت اور واضح صاف اور روشن قرآن ہے، جو شخص ذرا سا بھی غور کرے اس پر یہ کھل جاتا ہے۔ تاکہ روئے زمین پر جتنے لوگ موجود ہیں یہ ان سب کو آگاہ کر دے اور ڈرا دے جیسے فرمایا «لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْ بَلَغَ»[ 6- الانعام: 19 ] تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈرا دوں اور جسے بھی یہ پہنچ جائے۔ اور آیت میں ہے «وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ»[ 11-ھود: 17 ] یعنی جماعتوں میں سے جو بھی اسے نہ مانے وہ سزاوار دوزخی ہے۔ ہاں اس قرآن سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اثر وہی لیتا ہے۔ جو زندہ دل اور اندرونی نور والا ہو۔ عقل و بصیرت رکھتا ہو اور عذاب کا قول تو کافروں پر ثابت ہے ہی۔ پس قرآن مومنوں کے لیے رحمت اور کافروں پر اتمام حجت ہے۔