اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھے تمام کائنات کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔
جیسے اور جگہ ہے «قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا»[7-الأعراف:158] یعنی ” اعلان کر دو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ “
اور آیت میں ہے «تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا»[25-الفرقان:1] ” بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہاں کو ہوشیار کر دے “ یہاں بھی فرمایا ”کہ اطاعت گزاروں کو بشارت جنت دے اور نافرمانوں کو خبر جہنم۔ لیکن اکثر لوگ اپنی جہالت سے نبی کی نبوت کو نہیں مانتے“
جیسے فرمایا «وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ»[12-يوسف:103] ” گو تو ہر چند چاہے تاہم اکثر لوگ بے ایمان رہیں گے۔ “
ایک اور جگہ ارشاد ہوا اگر بڑی جماعت کی بات مانے گا تو وہ خود تجھے راہ راست سے ہٹا دیں گے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام لوگوں کی طرف ہے۔ عرب و عجم سب کی طرف سے اللہ کو زیادہ پیارا وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تابع فرمان ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور نبیوں پر غرض سب پر فضیلت دی ہے۔ لوگوں نے اس کی دلیل دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو قرآن فرماتا ہے کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ وہ اس میں کھلم کھلا تبلیغ کر دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے عام لوگوں کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا۔
بخاری و مسلم میں فرمان رسالت مآب ہے کہ مجھے پانچ صفتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ مہینہ بھر کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے۔ میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے۔ میری امت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے غنیمت کا مال حلال نہ تھا میرے لیے غنیمت حلال کر دی گئی۔ مجھے شفاعت دی گئی۔ ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔ اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ [صحیح مسلم:3521]
اور حدیث میں ہے سیاہ و سرخ سب کی طرف میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ [صحیح مسلم:3] یعنی جن و انس، عرب و عجم کی طرف، پھر کافروں کا قیامت کو محال ماننا بیان ہو رہا ہے کہ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی؟
جیسے اور جگہ ہے بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور با ایمان اس سے کپکپا رہے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں۔ [42-الشورى:18]
جواب دیتا ہے کہ تمہارے لیے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیم و تاخیر کمی و زیادتی ناممکن ہے۔ جیسے فرمان ہے «اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ»[71-نوح:4] اور فرمایا «وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ»[11-هود:104-105] الخ یعنی ” وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں۔ تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا۔ اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت۔ “