تفسير ابن كثير



انبیاء کے قاتل بنو اسرائیل ٭٭

یہاں ان اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے جو گناہ اور حرام کام کرتے رہتے تھے اور اللہ کی پہلی اور بعد کی باتوں کو جو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعہ پہنچائیں جھٹلاتے رہتے تھے، اتنا ہی نہیں بلکہ پیغمبروں کو مار ڈالتے بلکہ اس قدر سرکش تھے کہ جو لوگ انہیں عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بیدریغ تہ تیغ کر دیا کرتے تھے، حدیث میں ہے حق کو نہ ماننا اور حق والوں کو ذلیل جاننا یہی کبر و غرور ہے [صحیح مسلم:91] ‏‏‏‏

مسند ابوحاتم میں ہے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب کسے ہو گا؟ آپ نے فرمایا: جو کسی نبی کو مار ڈالے یا کسی ایسے شخص کو جو بھلائی کا بتانے والا اور برائی سے بچانے والا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا اے ابوعبیدہ! بنو اسرائیل نے تینتالیس نبیوں کو دن کے اول حصہ میں ایک ہی ساعت میں قتل کیا پھر ایک سو ستر بنو اسرائیل کے وہ ایماندار جو انہیں روکنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے انہیں بھلائی کا حکم دے رہے تھے اور برائی سے روک رہے تھے ان سب کو بھی اسی دن کے آخری حصہ میں مار ڈالا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انہی کا ذکر کر رہا ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:2/162:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بنو اسرائیل نے تین سو نبیوں کو دن کے شروع میں قتل کیا اور شام کو سبزی پالک بیچنے بیٹھ گئے، پس ان لوگوں کی اس سرکشی تکبر اور خود پسندی نے ذلیل کر دیا اور آخرت میں بھی رسوا کن بدترین عذاب ان کے لیے تیار ہیں، اسی لیے فرمایا کہ انہیں درد ناک ذلت والے عذاب کی خبر پہنچا دو، ان کے اعمال دنیا میں بھی غارت اور آخرت میں بھی برباد اور ان کا کوئی مددگار اور سفارشی بھی نہ ہو گا۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.