داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کر کے پھر آپ کے فرزند سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کے لئے ہوا کو تابع فرمان بنا دیا۔
مہینے کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی تھی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچا دیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کابل پہنچ گیا۔ تانبے کو بطور پانی کے کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلا دقت لے لیا کریں۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے۔
سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کر دیا وہ جو چاہتے تھے اپنے سامنے ان سے کام لیتے۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان علیہ السلام کی تعمیل سے جی چراتا تھا فوراً آگ میں جلا دیا جاتا۔
ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ [طبرانی کبیر:214/22:صحیح] ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے۔
ابن نعیم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کے لئے تو عذاب و ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔ اور تیسری قسم انسانی صورتوں میں شیطانی دل رکھنے والے۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں عذاب ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایمان دار ولی ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں،
«محاریب» کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو، گھر کے بہترین حصے کو، مجلس کی صدارت کی جگہ کو۔ بقول مجاہد رحمہ اللہ ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسجدوں کو۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو۔ ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں گھروں کو۔
«تماثیل» تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں۔ «جواب» جمع ہے «جابیہ» کی۔ «جابیہ» اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہے۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ سلیمان علیہ السلام کی بڑی فوج کے لئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہو سکے اور ان کے سامنے لایا جا سکے۔
اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پنے کے ادھر ادھر نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے
اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے، زبان سے اور دل سے۔ عبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کے لئے کرے۔ شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے۔
محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے اور نیک عمل ہے۔ آل داؤد دونوں طرح شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال، اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا تھا۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند داؤد علیہ السلام کی نماز تھی۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے۔ آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بے روزہ ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے۔ [صحیح بخاری:1131]
ابن ماجہ میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے۔ [سنن ابن ماجہ:1332،قال الشيخ الألباني:۔ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے اس موقعہ پر داؤد علیہ السلام کی ایک معطول حدیث مروی ہے۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری سے عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہو گا؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کر لی جب کہ تو نے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔
پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں۔