نبیوں کے سوا غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنا اگر تبعاً ہو تو بیشک جائز ہے۔ جیسے حدیث میں ہے «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ»۔ ہاں صرف غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنے میں اختلاف ہے۔
بعض تو اسے جائز بتاتے ہیں اور دلیل میں آیت «هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا»[33-الأحزاب:43] ، اور «أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»[2-البقرة:157] اور «وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ»[9-التوبة:103] پیش کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قوم کا صدقہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ»۔ [صحیح مسلم:1798]
چنانچہ عبداللہ بن ابی اوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقے کا مال لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى»۔ [صحیح مسلم:1078] ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے خاوند پر صلواۃ بھیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ عَلی زَوْجِكِ»۔ [سنن ابوداود:1533،قال الشيخ الألباني:صحیح] لیکن جمہور علماء اس کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے سوا اوروں پر خاصتہ صلوٰۃ بھیجنا ممنوع ہے۔
اس لیے کہ اس لفظ کا استعمال انبیاء علیہم الصلٰوۃ السلام کیلئے اس قدر بکثرت ہو گیا ہے کہ سنتے ہی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ نام کسی نبی علیہ السلام کا ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ غیر نبی کیلئے یہ الفاظ نہ کہے جائیں۔
مثلاً ابوبکر صل اللہ علیہ یا علی صلی اللہ علیہ نہ کہا جائے گو معنی اس میں کوئی قباحت نہیں جیسے محمد عزوجل نہیں کہا جاتا۔ حالانکہ ذی عزت اور ذی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اس لیے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے مشہور ہو چکے ہیں اور کتاب و سنت میں صلوٰۃ کا جو استعمال غیر انبیاء کیلئے ہوا ہے وہ بطور دعا کے ہے۔ اسی وجہ سے آل ابی اوفی کو اس کے بعد کسی نے ان الفاظ سے یاد نہیں کیا نہ جابر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا کو۔ یہی مسلک ہمیں بھی اچھا لگتا ہے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بعض ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ غیر انبیاء کیلئے یہ الفاظ صلوٰۃ استعمال کرنا بددینوں کا شیوہ ہو گیا ہے۔ وہ اپنے بزرگوں کے حق میں یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پس ان کی اقتداء ہمیں نہ کرنی چاہیئے۔
اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ مخالفت کس درجے کی ہے حرمت کے طور پر یا کراہیت کے طور پر یا خلاف اولیٰ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے۔ اس لیے کہ بدعتیوں کا طریقہ ہے جس پر ہمیں کاربند ہونا ٹھیک نہیں اور مکروہ وہی ہوتا ہے جس میں نہی مقصود ہو۔
زیادہ تر اعتبار اس میں اسی پر ہے کہ صلوٰۃ کا لفظ سلف میں نبیوں پر ہی بولا جاتا رہا جیسے کہ عزوجل کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کیلئے بولا جاتا رہا۔ اب رہا سلام سو اس کے بارے میں شیخ ابو محمد جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بھی صلوٰۃ کے معنی میں ہے پس غائب پر اس کا استعمال نہ کیا جائے اور جو نبی نہ ہو اس کیلئے خاصتہً اسے بھی نہ بولا جائے۔ پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے۔ زندوں اور مردوں کا یہی حکم ہے۔ ہاں جو سامنے موجود ہو اس سے خطاب کر کے «سَلَامٌ عَلَیْكَ یَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ یَا السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا عَلَیْکُمْ» کہنا جائز ہے اور اس پر اجماع ہے۔
یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عموماً مصنفین کے قلم سے علی علیہ السلام نکلتا ہے یا علی کرم اللہ وجہہ نکلتا ہے گو معنی اس میں کوئی حرج نہ ہو لیکن اس سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جناب میں ایک طرح کی سوء ادبی پائی جاتی ہے۔ ہمیں سب صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسن عقیدت رکھنی چاہیئے۔ یہ الفاظ تعظیم و تکریم کے ہیں اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مستحق ان کے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ نہ بھیجنی چاہیئے۔ ہاں مسلمان مردوں عورتوں کیلئے دعا مغفرت کرنی چاہیئے۔“
عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ”بعض لوگ آخرت کے اعمال سے دنیا کے جمع کرنے کی فکر میں ہیں اور بعض مولوی واعظ اپنے خلیفوں اور امیروں کیلئے صلوٰۃ کے ہی الفاظ بولتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تھے۔ جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو انہیں کہہ دینا کہ صلوٰۃ صرف نبیوں کیلئے ہیں اور عام مسلمانوں کیلئے اس کے سوا جو چاہیں دعا کریں۔“
کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر صبح ستر ہزار فرشتے اتر کر قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیتے ہیں اور اپنے پر سمیٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا رحمت کرتے رہتے ہیں اور ستر ہزار رات کو آتے ہیں یہاں تک کہ قیامت کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک شق ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ [ فرع ]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”حضور پر صلوٰۃ و سلام ایک ساتھ بھیجنے چاہئیں صرف صلی اللہ علیہ وسلم یا صرف علیہ السلام نہ کہے۔“ اس آیت میں بھی دونوں ہی کا حکم ہے پس اولیٰ یہ ہے کہ یوں کہا جائے «صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً» ۔