اس آیت میں پردے کا حکم ہے اور شرعی آداب و احکام کا بیان ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق جو آیتیں اتری ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔ بخاری مسلم میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق ہی رب العالمین کے احکام نازل ہوئے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کو قبلہ بنائیں تو بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم اترا کہ «وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى»[2-البقرة:125] ، میں نے کہا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں ہر کوئی یعنی چھوٹا بڑا آ جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں تو اچھا ہو۔“ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردے کا حکم نازل ہوا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات غیرت کی وجہ سے کچھ کہنے سننے لگیں تو میں نے کہا ”کسی غرور میں نہ رہنا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دلوائے گا“، چنانچہ یہی آیت قرآن میں نازل ہوئی ۔ [صحیح بخاری:4483] صحیح مسلم میں ایک چوتھی موافقت بھی مذکور ہے وہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ ہے۔ [صحیح مسلم:2399]
اور روایت میں ہے سنہ 5 ھجری ماہ ذی قعدہ میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ہے۔ جو نکاح خود اللہ تعالیٰ نے کرایا تھا اسی صبح کو پردے کی آیت نازل ہوئی ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں یہ واقعہ سن تین ہجری کا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ [2-البقرة:125]
صحیح بخاری شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو لوگوں کی دعوت کی وہ کھا پی کر باتوں میں بیٹھے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھنے کی تیاری بھی کی۔ پھر بھی وہ نہ اٹھے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کچھ لوگ تو اٹھ کر چل دیئے لیکن پھر بھی تین شخص وہیں بیٹھے رہ گئے اور باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ ابھی تک باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر لوٹ گئے۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے گھر میں تشریف لے گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”میں نے بھی جانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ کر لیا اور یہ آیت اتری“۔ [صحیح بخاری:4791]
اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر گوشت روٹی کھلائی تھی اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو بلا لائیں لوگ آتے تھے کھاتے تھے اور واپس جاتے تھے۔ جب ایک بھی ایسا نہ بچا کہ جیسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ بلاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب دستر خوان بڑھا دو ۔ لوگ سب چلے گئے مگر تین شخص باتوں میں لگے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے نکل کر ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ» ۔ انہوں نے جواب دیا ” «وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» فرمایئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت دے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور سب جگہ یہی باتیں ہوئیں۔ اب لوٹ کر جو آئے تو دیکھا کہ وہ تینوں صاحب اب تک گئے نہیں۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں شرم و حیاء لحاظ و مروت بے حد تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرما نہ سکے اور پھر سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف چلے۔ اب نہ جانے میں نے خبر دی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود خبردار کر دیا گیا کہ وہ تینوں بھی چلے گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آئے اور چوکھٹ میں ایک قدم رکھتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیت نازل ہوئی ۔ [صحیح بخاری:4783] ایک روایت میں بجائے تین شخصوں کے دو کا ذکر ہے۔ [صحیح بخاری:4794]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی نئے نکاح پر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے مالیدہ بنا کر ایک برتن میں رکھ کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاؤ اور کہہ دینا کہ یہ تھوڑا سا تحفہ ہماری طرف سے قبول فرمایئے اور میرا سلام بھی کہہ دینا۔ اس وقت لوگ تھے بھی تنگی میں۔
میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ام المؤمنین کا سلام پہنچایا اور پیغام بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور فرمایا: اچھا اسے رکھ دو ۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا، پھر فرمایا: جاؤ فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ بہت سے لوگوں کے نام لیے اور پھر فرمایا: ان کے علاوہ جو مسلمان مل جائے میں نے یہی کیا۔
جو ملا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھانے کے لیے بھیجتا رہا واپس لوٹا تو دیکھا کہ گھر اور انگنائی اور بیٹھک سب لوگوں سے بھرے ہوئے ہے تقریباً تین سو آدمی جمع ہو گئے تھے۔ اب مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ وہ پیالہ اٹھا لاؤ ۔ میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر دعا کی اور جو اللہ نے چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے کہا، پھر فرمایا: چلو دس دس آدمی حلقہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ہر ایک بسم اللہ کہہ کر اپنے اپنے آگے سے کھانا شروع کرو ۔ اسی طرح کھانا شروع ہوا اور سب کے سب کھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیالہ اٹھالو ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے پیالہ اٹھا کر دیکھا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت رکھا اس وقت اس میں زیادہ کھانا تھا یا اب؟ چند لوگ آپ کے گھر میں ٹھہر گئے ان میں باتیں ہو رہی تھیں اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں ان کا اتنی دیر تک نہ ہٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزر رہا تھا لیکن شرم و لحاظ کی وجہ سے کچھ فرماتے نہ تھے۔
اگر انہیں اس بات کا علم ہو جاتا تو وہ نکل جاتے لیکن وہ بے فکری سے بیٹھتے ہی رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اور ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ بھی سمجھ گئے بڑے نادم ہوئے اور جلدی سے نکل لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر بڑھے اور پردہ لٹکا دیا۔ میں بھی حجرے میں ہی تھا جب یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے سب سے پہلے اس آیت کو عورتوں نے سنا اور میں تو سب سے اول ان کا سننے والا ہوں ۔ [صحیح مسلم:1428]
پہلے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا لے جانے کی روایت آیت «فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا»[33-الأحزاب:37] ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے اس کے آخر میں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر لوگوں کو نصیحت کی گئی اور ہاشم کی اس حدیث میں اس آیت کا بیان بھی ہے۔
ابن جریر میں ہے کہ رات کے وقت ازواج مطہرات قضائے حاجت کے لیے جنگل کو جایا کرتی تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہ تھا آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس طرح نہ جانے دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر توجہ نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نکلیں تو چونکہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی منشا یہ تھی کہ کسی طرح ازواج مطہرات «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ» کا یہ نکلنا بند ہو اس لیے انہیں ان کے قد و قامت کی وجہ سے پہچان کر با آواز بلند کہا کہ ”ہم نے تمہیں اے سودہ (رضی اللہ عنہا) پہچان لیا۔“ اس کے بعد پردے کی آیتیں اتریں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:28619:] اس روایت میں یونہی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے۔
چنانچہ مسند احمد میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ حجاب کے حکم کے بعد سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نکلیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ اسی وقت واپس آ گئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ ایک ہڈی ہاتھ میں تھی آ کر واقعہ بیان کیا اسی وقت وحی نازل ہوئی جب ختم ہوئی اس وقت بھی ہڈی ہاتھ میں ہی تھی اسے چھوڑی ہی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتوں کی بناء پر باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے ۔ [صحیح بخاری:4895]
آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عادت سے روکتا ہے جو جاہلیت میں اور ابتداء اسلام میں ان میں تھی کہ بغیر اجازت دوسرے کے گھر میں چلے جانا۔ پس اللہ تعالیٰ اس امت کا اکرام کرتے ہوئے اسے یہ ادب سکھاتا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون ہے کہ خبردار عورتوں کے پاس نہ جاؤ ۔ [صحیح بخاری:5232]
پھر اللہ نے انہیں مستثنیٰ کر لیا جنہیں اجازت دے دی جائے، تو فرمایا، ” مگر یہ کہ تمہیں اجازت دیجائے، کھانے کے لیے ایسے وقت پر نہ جاؤ کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو “۔
مجاہد اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ ”کھانے کے پکنے اور اس کے تیار ہونے کے وقت ہی نہ پہنچو۔ جب سمجھا کہ کھانا تیار ہوگا، جا گھسے یہ خصلت اللہ کو پسند نہیں۔ یہ دلیل ہے طفیلی بننے کی حرمت پر۔ امام خطیب بغدادی نے اس کی مذمت میں پوری ایک کتاب لکھی ہے۔
پھر فرمایا ” جب بلائے جاؤ تم پھر جاؤ اور جب کھا چکو تو نکل جاؤ “۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ تم میں سے کسی کو جب اس کا بھائی بلائے تو اسے دعوت قبول کرنی چاہیئے خواہ نکاح کی ہو یا کوئی اور اور ۔ [صحیح مسلم:1429]
حدیث میں ہے اگر مجھے فقط ایک کھر کی دعوت دی جائے تو بھی میں اسے قبول کروں گا ۔ [صحیح بخاری:2568]
دستور دعوت بھی بیان فرمایا کہ ” جب کھا چکو تو اب میزبان کے ہاں چوکڑی مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ بلکہ وہاں سے چلے جاؤ۔ باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو “۔
جیسے ان تین شخصوں نے کیا تھا۔ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی لیکن شرمندگی اور لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ بولے، اسی طرح مطلب یہ بھی ہے کہ ” تمہارا بے اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں چلے جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ شرم و حیاء کے تم سے کہہ نہیں سکتے “۔ اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف فرما رہا ہے کہ ” اب سے ایسا نہ کرنا۔ وہ حق حکم سے حیاء نہیں کرتا۔ تمہیں جس طرح بے اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس جانا منع ہے اسی طرح ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے۔ اگر تمہیں ان سے کوئی ضروری چیز لینی دینی بھی ہو تو پس پردہ لین دین ہو “۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مالیدہ کھا رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی بلا لیا آپ رضی اللہ عنہ بھی کھانے بیٹھ گئے۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پہلے ہی سے کھانے میں شریک تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ازواج مطہرات «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ» کے پردے کی تمنا میں تھے کھاتے ہوئے انگلیوں سے انگلیاں لگ گئیں تو بےساختہ فرمانے لگے ”کاش کہ میری مان لی جاتی اور پردہ کرایا جاتا تو کسی کی نگاہ بھی نہ پڑتی“ اس وقت پردے کا حکم اترا ۔ [نسائی فی السنن الکبری:11419:ضعیف]
پھر پردے کی تعریف فرما رہا ہے کہ ” مردوں عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی کا یہ ذریعہ ہے “۔ کسی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہوگا اس آیت میں یہ حرام قرار دیا گیا۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں زندگی میں اور جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں اور جملہ مسلمانوں کی وہ مائیں ہیں اس لیے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا محض حرام ہے۔
یہ حکم ان بیویوں کے لیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت تھیں سب کے نزدیک اجماعاً ہے لیکن جس بیوی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں طلاق دے دی اور اس سے میل ہو چکا ہو تو اس سے کوئی اور نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں دو مذہب میں اور جس سے دخول نہ کیا اور طلاق دے دی ہو اس سے دوسرے لوگ نکاح کر سکتے ہیں۔
قیلہ بنت اشعث بن قیس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آ گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد اس نے عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل سے نکاح کر لیا۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر یہ گراں گزرا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ”اے خلیفہ رسول یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی نہ تھی نہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا نہ اسے پردہ کا حکم دیا اور اس کی قوم کے ارتداد کے ساتھ ہیں اس کے ارتداد کی وجہ سے اللہ نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بری کر دیا“، یہ سن کر سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کا اطمینان ہو گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:28624:مرسل]
پس ان دونوں باتوں کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ” رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینا ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کر لینا یہ دونوں گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے ہیں، «يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ»[40-غافر:19] تمہاری پوشیدگیاں اور علانیہ باتیں سب اللہ پر ظاہر ہیں، اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔ آنکھوں کی خیانت کو، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے ارادوں کو وہ جانتا ہے “۔