حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یعنی مومنوں کی ماؤں نے جب اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آخرت کے پہلے گھر کو پسند کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں وہ ہمیشہ کے لیے مقرر ہو چکیں، تو اب جناب باری عز اسمہ اس آیت میں انہیں وعظ فرما رہا ہے اور بتلا دیا ہے کہ ” تمہارا معاملہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے۔ اگر بالفرض تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے سرتابی اور بدخلقی سرزد ہوئی تو تمہیں دنیا اور آخرت میں عتاب ہوگا چونکہ تمہارے بڑے رتبے ہیں تمہیں گناہوں سے بالکل دور رہنا چاہیئے۔ ورنہ رتبے کے مطابق مشکل بھی بڑھ جائے گی “۔
اللہ پر سب باتیں سہل اور آسان ہیں، یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ فرمان بطور شرط کے ہے اور شرط کا ہونا ضروری نہیں ہوتا جیسے فرمان ہے آیت «لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ»[39-الزمر:65] ، ” اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں گے “۔
نبیوں کا ذکر کرکے فرمایا آیت «وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ»[6-الأنعام:88] ” اگر یہ شرک کریں تو ان کی نیکیاں بیکار ہو جائیں “۔
اور آیت میں ہے «قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ»[43-الزخرف:81] ” اگر رحمان کے اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے عابد ہوں “۔
اور آیت میں ارشاد ہو رہا ہے «لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبْحٰنَهٗ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ»[39-الزمر:4] ، یعنی ” اگر اللہ کو اولاد منظور ہوتی تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا پسند فرما لیتا وہ پاک ہے وہ یکتا اور ایک ہے وہ غالب اور سب پر حکمران ہے “۔
پس ان پانچوں آیتوں میں شرط کے ساتھ بیان ہے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ نہ نبیوں سے شرک ہونا ممکن نہ سردار رسولاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ممکن۔ نہ اللہ کی اولاد۔
اسی طرح امہات المؤمنین کی نسبت بھی جو فرمایا کہ ” اگر تم میں سے کوئی کھلی لغو حرکت کرے تو اسے دگنی سزا ہو گی “ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ واقعی ان میں سے کسی نے کوئی ایسی نافرمانی اور بدخلقی کی ہو۔ نعوذ باللہ