اتنا ہم پہلے لکھ چکے ہیں جب مشرکین و یہود کے لشکر مدینے پر آئے اور انہوں نے گھیرا ڈالا تو بنو قریظہ کے یہودی جو مدینے میں تھے اور جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد و پیمان ہو چکا تھا انہوں نے بھی عین موقعہ پر بے وفائی کی اور عہد توڑ کر آنکھیں دکھانے لگے ان کا سردار کعب بن اسد باتوں میں آگیا اور حی بن اخطب خبیث نے اسے بدعہدی پر آمادہ کر دیا۔ پہلے تو یہ نہ مانا اور اپنے عہد پر قائم رہا حی نے کہا کہ دیکھ تو سہی میں تو تجھے عزت کا تاج پہنانے آیا ہوں۔ قریش اور ان کے ساتھی غطفان اور ان کے ساتھی اور ہم سب ایک ساتھ ہیں۔ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک ایک ایک مسلمان کا قیمہ نہ کر لیں یہاں سے نہیں ہٹنے کے کعب چونکہ جہاندیدہ شخص تھا اس نے جواب دیا کہ محض غلط ہے۔ یہ تمہارے بس کے نہیں تو ہمیں ذلت کا طوق پہنانے آیا ہے۔ تو بڑا منحوس شخص ہے میرے سامنے سے ہٹ جا اور مجھے اپنی مکاری کا شکار نہ بنا لیکن حی پھر بھی نہ ٹلا اور اسے سمجھاتا بجھاتا رہا۔
آخر میں کہا سن اگر بالفرض قریش اور غطفان بھاگ بھی جائیں تو میں مع اپنی جماعت کے تیری گڑھی میں آ جاؤں گا اور جو کچھ تیرا اور تیری قوم کا حال ہو گا۔ وہی میرا اور میری قوم کا حال ہو گا۔ بالآخر کعب پر حی کا جادو چل گیا اور بنو قریظہ نے صلح توڑ دی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو سخت صدمہ ہوا اور بہت ہی بھاری پڑا۔
پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی مدد کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع اصحاب رضی اللہ عنہم کے مظفر و منصور مدینے شریف کو واپس آئے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہتھیار کھول دئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہتھیار اتاکر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گرد و غبار سے پاک صاف ہونے کے لیے غسل کرنے کو بیٹھے ہی تھے جو جبرائیل علیہ السلام ظاہر ہوئے آپ کے سر پر ریشمی عمامہ تھا خچر پر سوار تھے جس پر ریشمی گدی تھی فرمانے لگے کہ ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر کھول لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔
حضرت جبرائیل نے فرمایا ”لیکن فرشتوں نے اب تک اپنے ہتھیار الگ نہیں کئے۔ میں کافروں کے تعاقب سے ابھی ابھی آ رہا ہوں سنئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان کی پوری گوشمالی کیجئے۔ مجھے بھی اللہ کا حکم مل چکا ہے کہ میں انہیں تھرادوں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے تیار ہو کر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو حکم دیا اور فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک عصر کی نماز بنو قریظہ میں ہی پڑھے ۔ ظہر کے بعد یہ حکم ملا تھا بنو قریظہ کا قلعہ یہاں سے کئی میل پر تھا۔ نماز کا وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو راستہ میں آ گیا۔ تو بعض نے تو نماز ادا کر لی اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم تیز چلیں۔ اور بعض نے کہا ہم تو وہاں پہنچے بغیر نماز نہیں پڑھیں گے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں سے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ لشکر کا جھنڈادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہام اجمعین کے پیچھے پیچھے بنو قریظہ کی طرف چلے اور جا کر ان کے قلعہ کو گھیر لیا۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک رہا۔
جب یہودیوں کے ناک میں دم آ گیا اور تنگ حال ہو گئے تو انہوں نے اپنا حاکم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنایا جو قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ بنو قریظہ میں اور قبیلہ اوس میں زمانہ جاہلیت میں اتفاق و یگانگت تھی ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لیے ان یہودیوں کو یہ خیال رہا کہ سعد رضی اللہ عنہ ہمارا لحاظ اور پاس کریں گے جیسے کہ عبداللہ بن ابی سلول نے بنو قینقاع کو چھڑوایا تھا۔
ادھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جنگ خندق میں انہیں اکحل کی رگ میں ایک تیر لگا تھا جس سے خون جاری تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم پر داغ لگوایا تھا اور مسجد کے خیمے میں ہی انہیں رکھا تھا کہ پاس ہی پاس عیادت اور بیمار پر سی کر لیا کریں۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی کہ ”اے پروردگار اگر اب بھی کوئی ایسی لڑائی باقی ہے جس میں کفار قریش تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھ آئیں تو تو مجھے زندہ رکھ کہ میں اس میں شرکت کر سکوں اور اگر تو نے کوئی ایک لڑائی بھی ایسی باقی نہیں رکھی تو خیر میرا زخم خون بہاتا رہے لیکن اے میرے رب جب تک میں بنو قریظہ قبیلے کی سرکشی کی سزا سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہ کر لوں تو میری موت کو مؤخر فرمانا۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ جیسے مستجاب الدعوات کی دعا کی قبولیت کی شان دیکھئیے کہ آپ رضی اللہ عنہ دعا کرتے ہیں ادھر یہودان بنو قریظہ آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر اظہار رضا مندی کرکے قلعے کو مسلمانوں کے سپرد کرتے ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدمی بھیج کر آپ رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے بلواتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ آ کر ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیں۔ یہ گدھے پر سوار کرالئے گیے اور سارا قبیلہ ان سے لپٹ گیا کہ دیکھئیے خیال رکھئے گا بنو قریظہ آپ رضی اللہ عنہ کے آدمی ہیں انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ پر بھروسہ کیا ہے وہ آپ رضی اللہ عنہ کے حلیف ہیں آپ کے قوم کے دکھ کے ساتھی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ ان پر رحم فرمائیے گا ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے گا۔ دیکھئیے اس وقت ان کا کوئی نہیں وہ آپ رضی اللہ عنہ کے بس میں ہیں وغیرہ لیکن سعد رضی اللہ عنہا محض خاموش تھے کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ ان لوگوں نے مجبور کیا کہ جواب دیں پیچھا ہی نہ چھوڑا۔
آخر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”وقت آگیا ہے کہ سعد (رضی اللہ عنہ) اس بات کا ثبوت دے کہ اسے اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں۔“ یہ سنتے ہی ان لوگوں کے تو دل ڈوب گئے اور سمجھ لیا کہ بنو قریظہ کی خیر نہیں۔
جب سعد رضی اللہ عنہا کی سواری اس خیمے کے قریب پہنچ گئی جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو ، چنانچہ مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کو عزت واکرام وقعت واحترام سے سواری سے اتارا یہ اس لیے تھا کہ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ حاکم کی حیثیت میں تھے ان کے فیصلے پورے ناطق و نافذ سمجھے جائیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹھتے ہی حضور نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کے فیصلے پر رضامند ہو کر قلعے سے نکل آئیں ہیں اب آپ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیجئیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا جو میں ان پر حکم کروں وہ پورا ہو گا؟ حضور نے فرمایا: ہاں کیوں نہیں؟ کہا اور اس خیمے والوں پر بھی اس کی تعمیل ضروری ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً پوچھا اور اس طرف والوں پر بھی؟ اور اشارہ اس طرف کیا جس طرف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور عزت و عظمت کی وجہ سے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں اس طرف والوں پر بھی ۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب میرا فیصلہ سنئے ”میں کہتا ہوں بنو قریظہ میں جتنے لوگ لڑنے والے ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کی اولاد کو قید کر لیا جائے ان کے مال قبضے میں لائے جائیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سعد (رضی اللہ عنہ) تم نے ان کے بارے میں وہی حکم کیا جو اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر کیا ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سچے مالک اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا وہی سنایا ہے ۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خندقیں کھائی کھدوا کر انہیں بندھا ہوا بلوا کر ان کی گردنیں ماری گئیں۔ یہ گنتی میں سات آٹھ سو تھے ان کی عورتیں نابالغ بچے اور مال لے لیے گئے ۔ [صحیح بخاری:4117] ہم نے یہ کل واقعات اپنی کتاب السیر میں تفصیل سے لکھ دئیے ہیں۔ «والْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
پس فرماتا ہے کہ ” جن اہل کتاب یعنی یہودیوں نے کافروں کے لشکروں کی ہمت افزائی کی تھی اور ان کا ساتھ دیا تھا ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعے خالی کرا دئیے “۔
اس قوم قریظہ کے بڑے سردار جن سے ان کی نسل جاری ہوئی تھی اگلے زمانے میں آ کر حجاز میں اسی طمع میں بسے تھے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہماری کتابوں میں ہے وہ چونکہ یہیں ہونے والے ہیں تو ہم سب پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی سعادت سے مسعود ہونگے۔ لیکن ان ناحلقوں نے جب اللہ کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ان کی تکذیب کی جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت ان پر نازل ہوئی۔
«صَیَاصِی» سے مراد قلعے ہیں اسی معنی کے لحاظ سے سینگوں کو بھی «صَیَاصِی» کہتے ہیں اس لیے کہ جانور کے سارے جسم کے اوپر اور سب سے بلند یہی ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا انہوں نے ہی مشرکین کو بھڑکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کرائی تھی۔ عالم جاہل برابر نہیں ہوتے۔ یہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جڑوں سے اکھیڑ دینا چاہا تھا لیکن معاملہ برعکس ہو گیا پانسہ پلٹ گیا قوت کمزوری سے اور مراد نامرادی سے بدل گئی۔ نقشہ بگڑ گیا حمایتی بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ بے دست و پا رہ گئے۔ عزت کی خواہش نے ذلت دکھائی مسلمانوں کے برباد کرنے اور پیس ڈالنے کی خواہش نے اپنے تئیں پسوا دیا۔ اور ابھی آخرت کی محرومی باقی ہے۔ کچھ قتل کر دئیے گئے باقی قیدی کر دیئے گئے۔
عطیہ فرظی کا بیان ہے کہ جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو میرے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تردد ہوا۔ فرمایا: اسے الگ لے جاؤ دیکھو اگر اس کے ناف کے نیچے بال ہوں تو قتل کر دو ورنہ قیدیوں میں بٹھادو ۔ دیکھا تو میں بچہ ہی تھا زندہ چھوڑ دیا گیا۔ [سنن ابوداود:4404، قال الشيخ الألباني:صحیح]
ان کی زمین گھر ان کے مال کے مالک مسلمان بن گئے بلکہ اس زمین کے بھی جو اب تک پڑی تھی اور جہاں مسلمان کے نشان قدم بھی نہ پڑے تھے یعنی خیبر کی زمین یا مکہ شریف کی زمین۔ یا فارس یا روم کی زمین اور ممکن ہے کہ یہ کل خطے مراد ہوں اللہ بڑی قدرتوں والا ہے۔
مسند احمد میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ خندق والے دن میں لشکر کا کچھ حال معلوم کرنے نکلی۔ مجھے اپنے پیچھے سے کسی کے بہت تیز آنے کی آہٹ اور اس کے ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی میں راستے سے ہٹ کر ایک جگہ بیٹھ گئی دیکھا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ لشکر کی طرف جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بھائی حارث بن اوس رضی اللہ عنہ تھے جن کے ہاتھ میں ان کی ڈھال تھی۔ سعد رضی اللہ عنہ لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے لیکن بڑے لانبے چوڑے تھے زرہ پورے بدن پر نہیں آئی تھی ہاتھ کھلے تھے اشعار رجز پڑھتے ہوئے جھومتے جھامتے چلے جا رہے تھے میں یہاں سے اور آگے بڑھی اور ایک باغیچے میں چلی گئی۔
وہاں کچھ مسلمان موجود تھے جن میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ایک اور صاحب جو خود اوڑھے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا پس پھر کیا تھا؟ بڑے ہی بگڑے اور مجھ سے فرمانے لگے ”یہ دلیری؟ تم نہیں جانتیں لڑائی ہو رہی ہے؟ اللہ جانے کیا نتیجہ ہو؟ تم کیسے یہاں چلی آئیں وغیرہ وغیرہ۔“
جو صاحب مغفر سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے انہوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ باتیں سن کر اپنے سر سے لوہے کا ٹوپ اتارا دیکھا اب میں پہچان گئی کہ وہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو خاموش کیا کہ کیا ملامت شروع کر رکھی ہے نتیجے کا کیا ڈر ہے؟ کیوں تمہیں اتنی گھبراہٹ ہے؟ کوئی بھاگ کے جائے گا کہاں؟ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے۔
سعد رضی اللہ عنہ کو ایک قریشی نے تاک کر تیر لگایا اور کہا لے میں ابن عرقہ ہوں۔ سعد رضی اللہ عنہ کی رگ اکحل پر وہ تیر پڑا اور پیوست ہوگیا۔ خون کے فوارے چھوٹ گئے اسی وقت آپ رضی اللہ عنہ نے دعا کی کہ ”اے اللہ مجھے موت نہ دینا جب تک بنو قریظہ کی تباہی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں۔“ اللہ کی شان سے اسی وقت خون تھم گیا۔
مشرکین کو ہواؤں نے بھگادیا اور اللہ نے مومنوں کی کفایت کر دی ابوسفیان اور اس کے ساتھی تو بھاگ کر تہامہ میں چلے گئے عیینہ بن بدر اس کے ساتھی نجد میں چلے گئے۔ بنو قریظہ اپنے قلعہ میں جا کر پنا گزین ہو گئے۔ میدان خالی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں واپس تشریف لے آئے۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں ہی چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ کا چہرہ گرد آلود تھا، فرمانے لگے ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار کھول دئیے؟ حالانکہ فرشتے اب تک ہتھیار بند ہیں۔ اٹھئے بنو قریظہ سے بھی فیصلہ کر لیجئے ان پر چڑھائی کیجئے۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہتھیار لگا لیے اور صحابہ میں بھی کوچ کی منادی کرا دی۔ بنو تمیم کے مکانات مسجد نبوی سے متصل ہی تھے راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیوں بھئی؟ کسی کو جاتے ہوئے دیکھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ابھی ابھی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہا گئے ہیں۔ حالانکہ تھے تو وہ جبرائیل علیہ السلام لیکن آپ کی ڈاڑھی چہرہ وغیرہ بالکل دحیہ کلبی سے ملتا جلتا تھا۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کر بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کیا پچیس روز تک یہ محاصرہ جاری رہا۔ جب وہ گھبرائے اور تنگ آ گئے تو ان سے کہا گیا کہ قلعہ ہمیں سونپ دو اور تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بارے میں جو چاہیں گے فیصلہ فرما دیں گے۔
انہوں نے ابولبابہ بن عبدالمنذر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا اس صورت میں تو اپنی جان سے ہاتھ دھولینا ہے۔ انہوں نے یہ معلوم کر کے اسے تو نامنظور کر دیا اور کہنے لگے ہم قلعہ خالی کر دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کو قبضہ دیتے ہیں ہمارے بارے کا فیصلہ ہم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی منظور فرما لیا۔
سعد رضی اللہ عنہ کو بلایا آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے گدھے پر سوار تھے جس پر کھجور کے درخت کی چھال کی گدی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ اس پر بمشکل سوار کرادیئے گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی قوم آپ کو گھیرے ہوئے تھی اور سمجھارہی تھی کہ دیکھو بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہمارے دوست ہیں ہماری موت زیست کے شریک ہیں اور ان کے تعلقات جو ہم سے ہیں وہ آپ رضی اللہ عنہ پر پوشیدہ نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموشی سے سب کی باتیں سنتے جاتے تھے جب ان کے محلہ میں پہنچے تو ان کی طرف نظر ڈالی اور کہا ”وقت آگیا کہ میں اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقاً پرواہ نہ کروں۔“
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے پاس ان کی سواری پہنچی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سید کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ہمارا سید تو اللہ ہی ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتارو ۔ لوگوں نے مل جل کر انہیں سواری سے اتارا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد (رضی اللہ عنہ) ان کے بارے میں جو حکم کرنا چاہو کر دو ۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ان کے بڑے قتل کر دئیے جائیں اور ان کے چھوٹے غلام بنائیے جائیں ان کا مال تقسیم کر لیا جائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد (رضی اللہ عنہ) تم نے اس حکم میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری موافقت کی ۔
پھر سعد رضی اللہ عنہ نے دعا مانگی کہ ”اے اللہ اگر تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش کی کوئی اور چڑھائی ابھی باقی ہو تو مجھے اس کی شمولیت کے لیے زندہ رکھ ورنہ اپنی طرف بلالے۔“ اسی وقت زخم سے خون بہنے لگا حالانکہ وہ پورا بھر چکا تھا یونہی سا باقی تھا چنانچہ انہیں پھر اسی خیمے میں پہنچا دیا گیا اور آپ وہیں شہد ہو گئے رضی اللہ عنہ۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی آئے سب رو رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آواز عمر رضی اللہ عنہ کی آواز میں پہچان بھی ہو رہی تھی میں اس وقت اپنے حجرے میں تھی۔
فی الواقع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی تھے جیسے اللہ نے فرمایا آیت «مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ»[48-الفتح:29] ” آپس میں ایک دوسرے کی پوری محبت اور ایک دوسرے سے الفت رکھنے والے تھے “۔
علقمہ رضی اللہ نے پوچھا ام المؤمنین یہ تو فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رویا کرتے تھے؟ فرمایا ”آپ کی آنکھیں کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں ہاں غم ورنج کے موقعہ پر آپ داڑھی مبارک اپنی مٹھی میں لے لیتے تھے“۔ [صحیح بخاری:4122]