تفسير ابن كثير



تکمیل ایمان کی ضروری شرط ٭٭

چونکہ رب العزت «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کو علم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیار دیا۔ یہ خود اپنے لیے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ دل و جان قبول کرتے جائیں۔

جیسے فرمایا «‏‏‏‏فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا» [4-النساء:65] ‏‏‏‏، ” تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو دل و جان بہ کشادہ پیشانی قبول نہ کر لیں “۔

صحیح حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی با ایمان نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اس کی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ [صحیح بخاری:15] ‏‏‏‏

ایک اور صحیح حدیث میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں عمر! جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ یہ سن کر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے قسم اللہ کی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ٹھیک ہے ۔ [صحیح بخاری:6632] ‏‏‏‏

بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو «اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا» ‏‏‏‏ [33-الأحزاب:6] ‏‏‏‏ سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔ اور اگر کوئی مر جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے ۔ [صحیح بخاری:2399] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود ان کی اپنی مائیں “۔

ہاں ماں کے اور احکام مثلاً خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھا ہے جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ کہ حکم کا اثبات۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المؤمنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمہ اللہ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو المؤمنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ خیال رہے کہ ابوالمؤمنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آ جائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے۔‏‏‏‏ امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے۔

ابی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی قرأت میں «اُمَّهَاتُهُمْ» کے بعد یہ لفظ ہیں «وَهُوَ اَبٌ لَّهُمْ» یعنی ” آپ ان کے والد ہیں “۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے۔

اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو! تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کر کے نہ بیٹھے۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجا کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے کی ممانعت فرماتے تھے ۔ [سنن ابوداود:8،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

دوسرا قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے «مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا» [33-الأحزاب:40] ‏‏‏‏ ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں “۔

پھر فرماتا ہے کہ ” بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں “۔ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کر دیا۔

پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرا دیا تھا۔

حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصار و مہاجرین کے بارے میں اترا ہے ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس کچھ مال نہ تھا یہاں آ کر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فلاں کے ساتھ۔ تھا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک زرقی شخص کے ساتھ۔ خود میرا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہو جاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لیے بھی ہوگیا۔‏‏‏‏ [مستدرک حاکم:443/3] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے ” ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے ان مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو “۔

پھر فرماتا ہے ” اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم وتبدیلی نہیں ہوئی “۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لیے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.