حضور صلی اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں وہ جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو، اور وہ جہنمی نہیں جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو ۔ [صحیح مسلم:39]
فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر تکبر ہے وہ اوندھے منہ جہنم میں جائے گا ۔ [مسند احمد:215/2:صحیح لغیره]
ارشاد ہے کہ انسان اپنے غرور اور خود پسندی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کے ہاں جباروں میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر سرکشوں کے عذاب میں پھنس جاتا ہے ۔ [مسند احمد:215/2:صحیح]
امام مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”ایک دن سلیمان بن داؤد علیہ السلام اپنے تخت پر بیٹے تھے آپ علیہ السلام کی دربار میں اس وقت دو لاکھ انسان تھے اور دو لاکھ جن تھے۔ آپ علیہ السلام کو آسمان تک پہنچایا گیا یہاں تک کہ فرشتوں کی تسبیح کی آواز کان میں آنے لگی۔ اور پھر زمین تک لایا گیا یہاں تک کہ سمندر کے پانی سے آپ علیہ السلام کے قدم بھیگ گئے۔ پھر ہاتف غیب نے ندادی کہ اگر اس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوتا تو جتنا اونچا گیا تھا اس سے زیادہ نیچے دھنسادیا جاتا۔“
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں انسان کی ابتدائی پیدائش کا بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ دو شخصوں کی پیشاب گاہ سے نکلتا ہے۔“ اس طرح اسے بیان فرمایا کہ سننے والے کراہت کرنے لگے۔
امام شعمی رحمہ اللہ کا قول ہے ”جس نے دو شخصوں کو قتل کر دیا وہ بڑا ہی سرکش اور جبار ہے پھر آپ رحمہ اللہ نے یہ آیت پڑھی «فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا قَالَ يَا مُوسَىٰ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ» [28-سورةالقص:19] ” کیا تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے؟ جیسے کہ تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے۔ تیرا ارادہ تو دنیا میں سرکش اور جبار بن کر رہنے کا معلوم ہوتا ہے “۔
حضرت حسن رحمہ اللہ کا مقولہ ہے ”وہ انسان جو ہر دن میں دو مرتبہ اپنا پاخانہ اپنے ہاتھ سے دھوتا ہے وہ کس بنا پر تکبر کرتا ہے اور اس کا وصف اپنے میں پیدا کرنا چاہتا ہے جس نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور اپنے قبضے میں رکھا ہے۔“
ضحاک بن سفیان رحمہ اللہ سے دنیا کی مثال اس چیز سے بھی مروی ہے جو انسان سے نکلتی ہے۔ امام محمد بن حسین بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”جس دل میں جتنا تکبر اور گھمنڈ ہوتا ہے اتنی ہی عقل اس کی کم ہو جاتی ہے۔“ یونس بن عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”سجدہ کرنے کے ساتھ تکبر اور توحید کے ساتھ نفاق نہیں ہوا کرتا۔“
بنی امیہ مارمار کر اپنی اولاد کو اکڑا کر چلنا سکھاتے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو آپ کی خلافت سے پہلے ایک مرتبہ اٹھلاتی ہوئی چال چلتے ہوئے دیکھ کر طاؤس رحمہ اللہ نے ان کے پہلو میں ایک ٹھونکا مارا اور فرمایا ”یہ چال اس کی جس کے پیٹ میں پاخانہ بھرا ہوا ہے؟“ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بہت شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے ”معاف فرمائیے ہمیں مارمار کر اس چال کی عادت ڈلوائی گئی ہے۔“