لقمان رحمہ اللہ نے اپنے بچے کو اس کی وصیت کی تھی اور ابن ابی الدنیا نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ ہم اس میں سے اہم باتیں یہاں ذکر کر دیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بہت سے پراگندہ بالوں والے میلے کچیلے کپڑوں والے جو کسی بڑے گھر تک نہیں پہنچ سکتے اللہ کے ہاں اتنے بڑے مرتبہ والے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم لگا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی پوری فرما دے ۔ [سنن ترمذي:3854،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور حدیث میں ہے سیدنا براء بن مالک رضی اللہ عنہ ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں ۔ [مستدرک حاکم: 291/3: صحیح]
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے دیکھ کر دریافت فرمایا تو جواب ملا کہ ”صاحب قبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث میں نے سنی ہے جسے یاد کر کے رورہا ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے اللہ تعالیٰ انہیں دوست رکھتا ہے جو متقی ہیں جو لوگوں میں چھپے چھپائے ہیں جو کسی گنتی میں نہیں آتے اگر وہ کسی مجمع میں نہ ہوں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں اگر آ جائیں تو کوئی آؤ بھگت نہیں لیکن ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر ایک غبار آلود اندھیرے سے بچ کرنور حاصل کر لیتے ہیں ۔ [سنن ابن ماجه:3989،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ میلے کچیلے کپڑوں والے جوذلیل گنے جاتے ہیں اللہ کے ہاں ایسے مقرب ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کر دے گو انہیں اللہ نے دنیا نہیں دی لیکن ان کی زبان سے پوری جنت کا سوال بھی نکل جائے تو اللہ پورا کر لیتا ہے ۔ [مسند بزار:3628:ضعیف دون الجملة]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر آ کر وہ لوگ ایک دینار ایک درہم بلکہ ایک فلوس بھی مانگیں تو تم نہ دو لیکن اللہ کے ہاں وہ ایسے پیارے ہیں کہ اگر اللہ سے جنت کی جنت مانگیں تو پروردگار دیدے ہاں دنیا نہ تو انہیں دیتا ہے نہ روکتا ہے اس لیے کہ یہ کوئی قابل قدر چیز نہیں۔ یہ میلی کچیلی دو چادروں میں رہتے ہیں اگر کسی موقعہ پر قسم کھا بیٹھیں تو جو قسم انہوں نے کھائی ہو اللہ پوری کرتا ہے ۔ [ابن ابی الدنیا فی الاولیاء:9:مرسل و ضعیف]
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت کے بادشاہ وہ لوگ ہیں جو پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والے ہیں غبار آلود اور گرد سے اٹے ہوئے وہ امیروں کے گھر جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہیں ملتی اگر کسی بڑے گھرانے میں نکاح کی مانگ کر ڈالیں تو وہاں کی بیٹی نہیں ملتی۔ ان مسکینوں سے انصاف کے برتاؤ نہیں برتے جاتے۔ ان کی حاجتیں اور ان کی امنگیں اور مرادیں پوری ہونے سے پہلے ہی خود ہی فوت ہو جاتی ہیں اور آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں انہیں قیامت کے دن اس قدر نور ملے گا کہ اگر وہ تقسیم کیا جائے تو تمام دنیا کے لیے کافی ہو جائے ۔ [بیهقی فی شعب الایمان:10486:منقطع و ضعیف]
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو دنیا میں حقیر وذلیل سمجھے جاتے ہیں کل قیامت کے دن تخت وتاراج والے ملک ومنال والے عزت وجلال والے بنے ہوئے ہونگے۔ باغات میں، نہروں میں، نعمتوں میں، راحتوں میں، مشغول ہونگے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جناب باری کا ارشاد ہے ” سب سے زیادہ میرا پسندیدہ ولی وہ ہے جو مومن ہو، کم مال والا، کم عال وعیال والا، غازی، عبادت واطاعت گزار، پوشیدہ واعلانیہ مطیع ہو، لوگوں میں اس کی عزت اور اس کا وقار نہ ہو، اس کی جانب انگلیاں نہ اٹھتی ہوں، اور وہ اس پر صابر ہو “، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جھاڑ کر فرمایا اس کی موت جلدی آ جاتی ہے اس کی میراث بہت کم ہوتی ہے اس کی رونے والیاں تھوڑی ہوتی ہیں ۔ [سنن ابن ماجه:4117،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
فرماتے ہیں اللہ کے سب سے زیادہ محبوب بندے غرباء ہیں جو اپنے دین کو لیے پھرتے ہیں جہاں دین کے کمزور ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہاں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں یہ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جمع ہونگے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے سے فرمائے گا ” کیا میں نے تجھ پر انعام واکرام نہیں فرمایا؟ کیا میں نے تجھے دیا نہیں؟ کیا میں نے تیرا جسم نہیں ڈھانپا؟ کیا میں نے تمہیں یہ نہیں دیا؟ کیا وہ نہیں دیا؟ کیا لوگوں میں تجھے عزت نہیں دی تھی؟ “ وغیرہ تو جہاں تک ہو سکے ان سوالوں کے جواب دینے کا موقعہ کم ملے اچھا ہے۔ لوگوں کی تعریفوں سے کیا فائدہ اور مذمت کریں تو کیا نقصان ہو گا۔ ہمارے نزدیک تو وہ شخص زیادہ اچھا ہے جسے لوگ برا کہتے ہوں اور وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو۔“
ابن محیریز رحمہ اللہ تو دعا کرتے تھے کہ ”اللہ میری شہرت نہ ہو۔“ خلیل بن احمد رحمہ اللہ اپنی دعا میں کہتے تھے ”اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں تو بلندی عطا فرما اور خود میری نظر میں مجھے بہت حقیر کر دے اور لوگوں کی نگاہوں میں مجھے درمیانہ درجہ کا رکھ“، پھر شہرت کا باب باندھ کر امام صاحب اس حدیث کو لائے ہیں انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ لوگ اس کی دینداری یادنیاداری کی شہرت دینے لگیں اور اس کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں اشارے ہونے لگیں۔ پس اسی میں آ کر بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں مگر جنہیں اللہ بچالے۔ سنو! اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمالوں کو دیکھتا ہے ۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت مرسلاً مروی ہے جب آپ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی تو کسی نے کہا آپ رضی اللہ عنہ کی طرف بھی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”سمجھے نہیں مراد انگلیاں اٹھنے سے دینی بدعت یا دنیوی فسق و فجور ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”شہرت حاصل کرنا نہ چاہو۔ اپنے آپ کو اونچا نہ کرو کہ لوگوں میں تذکرے ہونے لگیں علم حاصل کرو لیکن چھپاؤ چپ رہو تاکہ سلامت رہو، نیکوں کو خوش رکھو بدکاروں سے تصرف رکھو۔“
ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شہرت کا چاہنے والا اللہ کا ولی نہیں ہوتا۔“ ایوب رحمہ اللہ کا فرمان ہے ”جسے اللہ دوست بنالیتا ہے وہ تو لوگوں سے اپنا درجہ چھپاتا پھرتا ہے۔“
محمد بن علاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اللہ کے دوست لوگ اپنے تئیں ظاہر نہیں کرتے۔“ سماک بن سلمہ رحمہ اللہ کا قول ہے ”عام لوگوں کے میل جول سے اور احباب کی زیادتی سے پرہیز کرو۔“ ابان بن عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اگر دین کو سالم رکھنا چاہتے ہو تو لوگوں سے کم جان پہچان رکھو۔“
ابوالعالیہ رحمہ اللہ کا قاعدہ تھا جب دیکھتے کہ ان کی مجلس میں تین سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے تو انہیں چھوڑ کر خود چل دیتے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے ساتھ بھیڑ دیکھی تو فرمانے لگے ”طمع کی مکھیاں اور آگ کے پروانے جمع ہوگئے۔“ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کو لوگ گھیرے کھڑے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑا تانا اور فرمایا ”اس میں تابع کے لیے ذلت اور متبوع کے لیے فتنہ ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جب لوگ چلنے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”اگر تم پر میرا باطن ظاہر ہو جائے تو تم میں سے دو بھی میرے ساتھ چلنا پسند نہ کریں۔“ حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں ”جب ہم کسی مجلس کے پاس سے گزرتے اور ہمارے ساتھ ایوب رحمہ اللہ ہوتے تو لوگ سلام کرتے اور وہ سختی سے جواب دیتے۔“ پس یہ ایک نعمت تھی۔
آپ لمبی قمیض پہنتے اس پر لوگوں نے کہا تو آپ نے جواب دیا کہ اگلے زمانے میں شہرت کی چیز تھی۔ لیکن یہ شہرت اس کو اونچا کرنے میں ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ٹوپیاں مسنون رنگ کی رنگوائیں اور کچھ دنوں تک پہن کر اتاردی اور فرمایا ”میں نے دیکھا کہ عام لوگ انہیں نہیں پہنتے۔“
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”نہ تو ایسا لباس پہنو کہ لوگوں کی انگلیاں اٹھیں نہ اتنا گھٹیا پہنو کہ لوگ حقارت سے دیکھیں۔“
ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”عام سلف کا یہی معمول تھا کہ نہ بہت بڑھیا کپڑا پہنتے تھے نہ بالکل گھٹیا۔“ ابوقلابہ رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص بہت ہی بہترین اور شہرت کا لباس پہنے ہوئے آیا تو آپ نے فرمایا ”اس آواز دینے والے گدھے سے بچو۔“ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”بعض لوگوں نے دلوں میں تو تکبر بھر رکھا ہے اور ظاہر لباس میں تواضع کر رکھی ہے گویا چادر ایک بھاری ہتھوڑا ہے۔“
موسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا ”میرے سامنے تو درویشوں کی پوشاک میں آئے حالانکہ تمہارے دل بھیڑیوں جیسے ہیں۔ سنو لباس چاہے بادشاہوں جیسا پہنو مگر دل خوف اللہ سے نرم رکھو۔“