حضرت لقمان کی یہ اور وصیتیں ہیں اور چونکہ یہ سب حکمتوں سے پر ہیں۔ قرآن انہیں بیان فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان پر عمل کریں۔ فرماتے ہیں کہ ”برائی، خطا، ظلم ہے چاہے رائی کے دانے کے برابر بھی ہو پھر وہ خواہ کتنا ہی پوشیدہ اور ڈھکا چھپا کیوں نہ ہو قیامت کے دن اللہ اسے پیش کرے گا میزان میں سب کو رکھا جائے گا اور بدلہ دیا جائے گا نیک کام پر جزا بد پر سزا۔“
جیسے فرمان ہے آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا» [21-الأنبياء:47] ، یعنی ” قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھ کر ہر ایک کو بدلہ دیں گے کوئی ظلم نہ کیا جائے گا “۔
اور آیت میں ہے «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ»” ذرے برابر نیکی اور ذرے برابر برائی ہر ایک دیکھ لے گا “۔ [99-الزلزلة:8-7]
خواہ وہ نیکی یا بدی کسی مکان میں، محل میں، قلعہ میں، پتھر کے سوراخ میں، آسمانوں کے کونوں میں، زمین کی تہہ میں ہو کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں وہ اسے لا کر پیش کرے گا وہ بڑے باریک علم والا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس پر ظاہر ہے اندھیری رات میں چیونٹی جو چل رہی ہو اس کے پاؤں کی آہٹ کا بھی وہ علم رکھتا ہے۔
بعض نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ «اِنَّهَا» میں ضمیر شان کی اور قصہ کی ہے اور اس بناء پر انہوں نے «مِثْقَالُ» کی لام کا پیش پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ اچھی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ «صَخْرَةٌ» سے مراد وہ پتھر ہے جو ساتویں آسمان اور زمین کے نیچے ہیں۔ اس کی بعض سندیں بھی سدی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہیں اگر صحیح ثابت ہوجائیں۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے یہ مروی تو ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بہت ممکن ہے کہ یہ بھی بنی اسرائیل سے منقول ہوں لیکن ان کی کتابوں کی کسی بات کو ہم نہ سچی مان سکیں نہ جھٹلاسکیں۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقدر رائی کے دانہ کے کوئی عمل حقیر ہو اور ایسا پوشیدہ ہو کہ کسی پتھر کے اندر ہو۔
جیسے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم میں سے کوئی شخص کوئی علم عمل کرے کسی بے سوراخ کے پتھر کے اندر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی ہو نہ سوراخ ہو تاہم اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کر دے گا خواہ کچھ ہی عمل ہو نیک ہو یا بد ۔ [مسند احمد:28/3:ضعیف]
پھر فرماتے ہیں ”بیٹے نماز کا خیال رکھنا۔ اس کے فرائض، اس کے واجبات، ارکان اوقات وغیرہ کی پوری حفاظت کرنا۔ اپنی طاقت کے مطابق پوری کوشش کے ساتھ اللہ کی باتوں کی تبلیغ اپنوں، غیروں میں کرتے رہنا بھلی باتیں کرنے اور بری باتوں سے بچنے کے لیے ہر ایک سے کہنا۔“
اور چونکہ نیکی کا حکم یعنی بدی سے روکنا جو عموماً لوگوں کو کڑوی لگتی ہے۔ اور حق گو شخص سے لوگ دشمنی رکھتے ہیں اس لیے ساتھ ہی فرمایا کہ ”لوگوں سے جو ایذاء اور مصیبت پہنچے اس پر صبر کرنا درحقیقت اللہ کی راہ میں ننگی شمشیر رہنا اور حق پر مصیبتیں جھیلتے ہوئے پست ہمت نہ ہونا یہ بڑا بھاری اور جوانمردی کا کام ہے۔“
پھر فرماتے ہیں ”اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑ انہیں حقیر سمجھ کریا اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر نہ کر۔ بلکہ نرمی برت خوش خلقی سے پیش آ۔ خندہ پیشانی سے بات کر۔“
حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان بھائی سے تو کشادہ پیشانی سے ہنس مکھ ہو کر ملے یہ بھی تیری بڑی نیکی ہے۔ تہبند اور پاجامے کو ٹخنے سے نیچا نہ کر یہ تکبرو غرور ہے اور تکبر اور غرور اللہ کو ناپسند ہے ۔ [سنن ابوداود:4084،قال الشيخ الألباني:صحیح]
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر نہ کرنے کی وصیت کی ہے کہ ”ایسا نہ ہو کہ اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھ کر تو ان سے منہ موڑ لے اور مسکنیوں سے بات کرنے سے بھی شرمائے۔“ منہ موڑے ہوئے باتیں کرنا بھی غرور میں داخل ہے۔ باچھیں پھاڑ کر لہجہ بدل کر حاکمانہ انداز کے ساتھ گھمنڈ بھرے الفاظ سے بات چیت بھی ممنوع ہے۔
”صعر“ ایک بیماری ہے جو اونٹوں کی گردن میں ظاہر ہوتی ہے یا سر میں اور اس سے گردن ٹیڑھی ہو جاتی ہے، پس متکبر شخص کو اسی ٹیڑھے منہ والے شخص سے ملا دیا گیا۔ عرب عموماً تکبر کے موقعہ پر صعر کا استعمال کرتے ہیں اور یہ استعمال ان کے شعروں میں بھی موجود ہے۔ زمین پر تن کر، اکڑ کر، اترا کر، غرور وتکبر سے نہ چلو یہ چال اللہ کو ناپسند ہے۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند رکھتا ہے جو خود بین متکبر سرکش اور فخر و غرور کرنے والے ہوں اور آیت میں ہے «وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا»[17-الإسراء:37] ، یعنی ” اکڑ کر زمین پر نہ چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو “۔ اس آیت کی تفسیر بھی اس کی جگہ گزر چکی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کا ذکر آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی اور فرمایا کہ ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ غصہ ہوتا ہے ۔ اس پر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جب کپڑے دھوتا ہوں اور خوب سفید ہو جاتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں میں ان سے خوش ہوتا ہوں۔ اسی طرح جوتے میں تسمہ بھلالگتا ہے۔ کوڑے کا خوبصورت غلاف بھلا معلوم ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تکبر نہیں ہے تکبر اس کا نام ہے کہ تو حق کو حقیر سمجھے اور لوگوں کو ذلیل خیال کرے ۔ [طبرانی کبیر:1317:اسناده ضعیف وله شواهد] یہ روایت اور طریق سے بہت لمبی مروی ہے اور اس میں سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کے انتقال اور ان کی وصیت کا ذکر بھی ہے۔
”اور میانہ روی کی چال چلا کر نہ بہت آہستہ، خراماں خراماں نہ بہت جلدی لمبے ڈگ بھربھر کے۔ کلام میں مبالغہ نہ کرے بے فائدہ چیخ چلا نہیں۔ بدترین آواز گدھے کی ہے۔ جو پوری طاقت لگا کر بےسود چلاتا ہے۔ باوجودیکہ وہ بھی اللہ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر کرتا ہے۔“ پس یہ بھی بری مثال دے کر سمجھا دیا کہ بلاوجہ چیخنا ڈانٹ ڈپٹ کرنا حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بری مثالوں کے لائق ہم نہیں۔ اپنی دے دی ہوئی چیز واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ۔ [صحیح بخاری:2621]
نسائی میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرو۔ اس لیے کہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے ۔ [صحیح بخاری:3303] ایک روایت میں ہے رات کو ۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ [سنن ابوداود:5103،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ وصیتیں لقمان حکیم کی نہایت ہی نفع بخش ہیں۔ قرآن حکیم نے اسی لیے بیان فرمائی ہیں۔ آپ سے اور بھی بہت حکیمانہ قول اور وعظ ونصیحت کے کلمات مروی ہیں۔ بطور نمونہ کے اور دستور کے ہم بھی تھوڑے سے بیان کرتے ہیں۔
مسند احمد میں بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقمان حکیم کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کو جب کوئی چیز سونپ دی جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ [مسند احمد:87/2:صحیح]
اور حدیث میں آپ کا یہ قول بھی مروی ہے کہ تصنع سے بچ یہ رات کے وقت ڈراؤنی چیز ہے اور دن کو مذمت وبرائی والی چیز ہے ۔ [مستدرک حاکم:411/2:ضعیف]
آپ نے اپنے بیٹے سے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”حکمت سے مسکین لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں۔“ آپ کا فرمان ہے کہ ”جب کسی مجلس میں پہنچو پہلے اسلامی طریق کے مطابق سلام کرو پھر مجلس کے ایک طرف بیٹھ جاؤ۔ دوسرے نہ بولیں تو تم بھی خاموش رہو۔ اگر وہ ذکر اللہ کریں تو تم ان میں سب سے پہلے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرو۔ اور اگر وہ گپ شپ کریں تو تم اس مجلس کو چھوڑ دو۔“
مروی ہے کہ آپ اپنے بچے کو نصیحت کرنے کے لیے جب بیٹھے تو رائی کی بھری ہوئی ایک تھیلی اپنے پاس رکھ لی تھی اور ہر ہر نصیحت کے بعد ایک دانہ اس میں سے نکال لیتے یہاں تک کہ تھیلی خالی ہو گئی تو آپ نے فرمایا ”بچے اگر اتنی نصیحت کسی پہاڑ کو کرتا تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔“ چنانچہ آپ کے صاحبزادے کا بھی یہی حال ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حبشیوں کودوست رکھا کر ان میں سے تین شخص اہل جنت کے سردار ہیں لقمان حکیم رحمہ اللہ، نجاشی رحمہ اللہ اور بلال موذن رضی اللہ عنہ ۔ [طبرانی کبیر:11482:ضعیف و جدا]