اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ”لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے تھے۔“ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی۔“
آپ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا ”اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم رسالت پناہ کے غلام تھے۔ سیدنا مہج رضی اللہ عنہ جو جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے اور لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے۔“
حضرت خالد ربعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”لقمان جو حبشی غلام بڑھئی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے آقا نے یہی حکم کیا اور کہا آج اس سارے گوشت میں جو بدترین گوشت اور خبیث کے ٹکڑے ہوں وہ لادو۔ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے۔ مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین ٹکڑے تجھ سے مانگے تو تو یہی دو لایا اور بدترین مانگے تو تو نے یہی لادئیے۔ یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سب سے بدتر بھی یہی ہیں۔“
حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے۔“ اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ ”بنی اسرائیل میں قاضی تھے۔“
ایک اور قول ہے کہ ”آپ داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جو میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایا کرتا تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟ فرمایا سچ بولنے اور بے کار کلام نہ کرنے سے۔“
اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بے نفع کاموں کو چھوڑ دینا۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے۔ انبیاء کرام علیہ السلام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے۔
اسی لیے جمہور سلف کا قول ہے کہ لقمان نبی نہ تھے۔ ہاں عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہو جائے لیکن اس کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
کہتے ہیں کہ لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا یہی کہ پھر کیا وجہ ہے کہ تیری مجلس پر رہتی ہے لوگ تیرے دروازے پر آتے رہتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں؟
آپ نے فرمایا ”سنو! بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کر لو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤ گے۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو۔ زبان بے ہودہ باتوں سے روک لو۔ مال حلال کھایا کرو۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ زبان سے سچ بات بولا کرو۔ وعدے کو پورا کیا کرو۔ مہمان کی عزت کرو۔ پڑوسی کا خیال رکھو۔ بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دو۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے۔“
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ”لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے، جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس وقت ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لیے جاتے تھے کہ غوروفکر اور عبرت و نصیحت حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔“
قتادۃ رحمہ اللہ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ ”لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پر حکمت برسادی گئی اور رگ و پے میں حکمت بھر دی گئی۔ صبح کو ان کی باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنا دیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھا جاتا۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں۔ اس لیے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا۔“ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ”مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے۔ لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے۔“
” ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر۔ شکر گزار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے “۔
جیسے اور آیت میں ہے «وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ»[30-الروم:44] ” نیکی والے اپنے لیے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں “۔ یہاں فرمان ہے کہ ” اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اس کی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بے پرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بے نیاز ہے “۔ ساری زمین والے بھی اگر کافر ہو جائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔