یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہو سکتی، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گر پڑیں، ام الکتاب یعنی کتاب اللہ اصل اصولوں کی وہ صاف اور واضح آیتیں ہیں، شک و شبہ میں نہ پڑو اور کھلے احکام پر عمل کرو انہی کو فیصلہ کرنے والی مانو اور جو نہ سمجھ میں آئے اسے بھی ان سے ہی سمجھو، بعض اور آیتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک معنی تو ان کا ایسا نکلتا ہے جو ظاہر آیتوں کے مطابق ہو اور اس کے سوا اور معانی بھی نکلتے ہیں، گو وہ حرف لفظ اور ترکیب کے اعتبار سے واقعی طور پر نہ ہو تو ان غیر ظاہر معنوں میں نہ پھنسو، محکم اور متشابہ کے بہت سے معنی اسلاف سے منقول ہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا تو فرماتے ہیں کہ محکمات وہ ہیں جو ناسخ ہوں جن میں حلال حرام احکام لحکم ممنوعات حدیں اور اعمال کا بیان ہو، اسی طرح آپ سے یہ بھی مروی ہے «قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا»[6-الأنعام:151] اور اس کے بعد کے احکامات والی اور «وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ» [17-الإسراء:23] اور اس کے بعد کی تین آیتیں محکمات سے ہیں۔
سیدنا ابو فاختہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سورتوں کے شروع میں فرائض اور احکام اور روک ٹوک اور حلال و حرام کی آیتیں ہیں، سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں انہیں اصل کتاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام کتابوں میں ہیں، مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں اس لیے کہ تمام مذہب والے انہیں مانتے ہیں، متشابہات ان آیتوں کو کہتے ہیں جو منسوخ ہیں اور جو پہلے اور بعد کی ہیں اور جن میں مثالیں دی گئیں ہیں اور قسمیں کھائی گئی ہیں اور جن پر صرف ایمان لایا جاتا ہے اور عمل کیلئے وہ احکام نہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی فرمان ہے مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد سورتوں کے شروع کے حروف مقطعات ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
جیسے اور جگہ ہے «كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ»[39-الزمر:23] اور مثانی وہ ہے جہاں دو مقابل کی چیزوں کا ذِکر ہو جیسے جنت دوزخ کی صفت، نیکوں اور بدوں کا حال وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں متشابہ محکم کے مقابلہ میں اس لیے ٹھیک مطلب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا اور محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ کا یہی فرمان ہے، فرماتے ہیں یہ رب کی حجت ہے ان میں بندوں کا بچاؤ ہے، جھگڑوں کا فیصلہ ہے، باطل کا خاتمہ ہے، انہیں ان کے صحیح اور اصل مطلب سے کوئی گھما نہیں سکتا نہ ان کے معنی میں ہیرپھیر کر سکتا ہے۔ متشابہات کی سچائی میں کلام نہیں ان میں تصرف و تاویل نہیں کرنی چاہیئے۔ ان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے جیسے حلال حرام سے آزماتا ہے، انہیں باطل کی طرف لے جانا اور حق سے پھیرنا نہیں چاہیئے۔
پھر فرماتا ہے کہ جن کے دِلوں میں کجی، ٹیڑھ پن، گمراہی اور حق سے باطل کی طرف پھرنا ہی ہے وہ تو متشابہ آیتوں کو لے کر اپنے بدترین مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور لفظی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی طرف موڑ لیتے ہیں اور جو محکم آیتیں ان میں ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کے الفاظ بالکل صاف اور کھلے ہوئے ہوتے ہیں نہ وہ انہیں ہٹا سکتے ہیں نہ ان سے اپنے لیے کوئی دلیل حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی لیے فرمان ہے کہ اس سے ان کا مقصد فتنہ کی تلاش ہوتی ہے تاکہ اپنے ماننے والوں کو بہکائیں، اپنی بدعتوں کی مدافعت کریں جیسا کہ عیسائیوں نے قرآن کے الفاظ روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کا لڑکا ہونے کی دلیل لی ہے۔ پس اس متشابہ آیت کو لے کر صاف آیت جس میں یہ لفظ ہیں کہ «إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ»[43-الزخرف:59] ، یعنی عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے غلام ہیں، جن پر اللہ کا انعام ہے، اور جگہ ہے «إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ،» [3-آل عمران:59] یعنی عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم کی طرح ہے کہ انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ ہو جا، وہ ہو گیا، چنانچہ اسی طرح کی اور بھی بہت سی صریح آیتیں ہیں ان سب کو چھوڑ دیا اور متشابہ آیتوں سے عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کا بیٹا ہونے پر دلیل لے لی حالانکہ آپ اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کے بندے ہیں، اس کے رسول ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ان کی دوسری غرض آیت کی تحریف ہوتی ہے تاکہ اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر مفہوم بدل لیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں میں جھگڑتے ہیں تو انہیں چھوڑ دو، ایسے ہی لوگ اس آیت میں مراد لیے گئے ہیں۔ [صحیح بخاری:4547] یہ حدیث مختلف طرق سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے، صحیح بخاری شریف میں بھی یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے، ملاحظہ ہو کتاب القدر، ایک اور حدیث میں ہے یہ لوگ خوارج ہیں [مسند احمد:5/262:حسن] پس اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ موقوف سمجھ لیا جائے تاہم اس کا مضمون صحیح ہے اس لیے کہ پہلے بدعت خوارج نے ہی پھیلائی ہے، فرقہ محض دنیاوی رنج کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت حنین کی غنیمت کا مال تقسیم کیا اس وقت ان لوگوں نے اسے خلاف عدل سمجھا اور ان میں سے ایک نے جسے ذوالخویصرہ کہا جاتا ہے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر صاف کہا کہ عدل کیجئے، آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے امین بنا کر بھیجا تھا، اگر میں بھی عدل نہیں کروں تو پھر برباد ہو اور نقصان اٹھائے، جب وہ پلٹا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اسے مار ڈالوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوڑ دو، اس کی جنس سے ایک ایسی قوم پیدا ہو گی کہ تم لوگ اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنی قرآن خوانی کو ان کی قرآن خوانی کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے لیکن دراصل وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے، تم جہاں انہیں پاؤ گے قتل کرو گے، انہیں قتل کرنے والے کو بڑا ثواب ملے گا، [صحیح مسلم:1064-1066] سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ان کا ظہور ہوا اور آپ نے انہیں نہروان میں قتل کیا پھر ان میں پھوٹ پڑی تو ان کے مختلف الخیال فرقے پیدا ہو گئے، نئی نئی بدعتیں دین میں جاری ہو گئیں اور اللہ کی راہ سے بہت دور چلے گئے۔
ان کے بعد قدریہ فرقے کا ظہور ہوا، پھر معتزلہ پھر جہمیہ وغیرہ پیدا ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی پوری ہوئی کہ میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوں گے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو اس چیز پر ہوں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب رضی اللہ عنہم [مستدرک حاکم:1/129: ضعیف] ایویعلیٰ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ایک قوم پیدا ہو گی جو قرآن تو پڑھے گی لیکن اسے اس طرح پھینکے گی جیسے کوئی کھجور کی گٹھلیاں پھینکتا ہو، اس کے غلط مطالب بیان کرے گی، [الدرالمنشور:2/9:ضعیف] پھر فرمایا اس کی حقیقی تاویل اور واقعی مطلب اللہ ہی جانتا ہے، لفظ اللہ پر وقف ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو فرماتے ہیں تفسیر چار قسم کی ہے، ایک وہ جس کے سمجھنے میں کسی کو مشکل نہیں، ایک وہ جسے عرب اپنے لغت سے سمجھتے ہیں، ایک وہ جسے جید علماء اور پورے علم والے ہی جانتے ہیں اور ایک وہ جسے بجزذاتِ الٰہی کے اور کوئی نہیں جانتا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:1/57] یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی قول ہے، معجم کبیر میں حدیث ہے کہ مجھے اپنی امت پر صرف تین باتوں کا ڈر ہے۔ مال کی کثرت کا جس سے حسد و بغض پیدا ہو گا اور آپس کی لڑائی شروع ہو گی، دوسرا یہ کہ کتاب اللہ کی تاویل کا سلسلہ شروع ہو گا حالانکہ اصلی مطلب ان کا اللہ ہی جانتا ہے اور اہل علم والے کہیں گے کہ ہمارا اس پر ایمان ہے۔ تیسرے یہ کہ علم حاصل کرنے کے بعد اسے بےپرواہی سے ضائع کر دیں گے، [طبرانی کبیر:3442،قال امام ہیثمی:ضعیف] یہ حدیث بالکل غریب ہے۔
اور حدیث میں ہے کہ قرآن اس لیے نہیں اترا کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالف ہو، جس کا تمہیں علم ہو اور اس پر عمل کرو اور جو متشابہ ہوں ان پر ایمان لاؤ [ابن مردویہ] [مجمع الزوائد:1/171،قال الشيخ زبیرعلی زئی:حسن] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر بن عبدالعزیز اور سیدنا مالک بن انس سے بھی یہی مروی ہے کہ بڑے سے بڑے عالم بھی اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے، ہاں اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پختہ علم والے یہی کہتے ہیں اس کی تاویل کا علم اللہ ہی کو ہے کہ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی سے اتفاق کرتے ہیں، یہ تو تھی وہ جماعت جو «الا اللہ» پر وقف کرتی تھی اور بعد کے جملہ کو اس سے الگ کرتی تھی، کچھ لوگ یہاں نہیں ٹھہرتے اور «فی العلم» پر وقف کرتے ہیں، اکثر مفسرین اور اہل اصول بھی یہی کہتے ہیں، ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جو سمجھ میں نہ آئے ایسی بات کہنی ٹھیک نہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے میں ان راسخ علماء میں ہوں جو تاویل جانتے ہیں، [تفسیر ابن جریر الطبری:2/203] مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں راسخ علم والے تفسیر جانتے ہیں، محمد بن جعفر بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اصل تفسیر اور مراد اللہ ہی جانتا ہے اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے پھر متشابہات آیتوں کی تفسیر محکمات کی روشنی کرتے ہیں جن میں کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، قرآن کے مضامین ٹھیک ٹھاک سمجھ میں آتے ہیں دلیل واضح ہوتی ہے، عذر ظاہر ہو جاتا ہے، باطل چھٹ جاتا ہے اور کفر دفع ہو جاتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کیلئے دعا کی کہ اے اللہ! انہیں دین کی سمجھ دے اور تفسیر کا علم دے۔ [مسند احمد:1/266-314:صحیح]
بعض علماء نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے، قرآن کریم میں تاویل دو معنی میں آئی ہے، ایک معنی جن سے مفہوم کی اصلی حقیقت اور اصلیت کی نشاندہی ہوتی ہے، جیسے قرآن میں ہے «يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا»[12۔یوسف:100] میرے باپ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے۔
اور جگہ ہے «هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ»[7۔الاعراف:53] کافروں کے انتظار کی حد حقیقت کے ظاہر ہونے تک ہے اور یہ دن وہ ہو گا جب حقیقت سچائی کی گواہ بن کر نمودار ہو گی، پس ان دونوں جگہ پر تاویل سے مراد حقیقت ہے، اگر اس آیت مبارکہ میں تاویل سے مراد یہی تاویل لی جائے تو «إِلَّا اللَّـهُ» پر وقف ضروری ہے اس لیے کہ تمام کاموں کی حقیقت اور اصلیت بجز ذات پاک کے اور کوئی نہیں جانتا تو «وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ» مبتدا ہو گا اور «يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ» خبر ہو گی اور یہ جملہ بالکل الگ ہو گا اور تاویل کے دوسرے معنی تفسیر اور بیان اور ہے اور ایک شئے کی تعبیر دوسری شئے سے ہوتی ہے۔
جیسے قرآن میں ہے «نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ»[12۔یوسف:36] ہمیں اس کی تاویل بتاؤ یعنی تفسیر اور بیان، اگر آیت مذکورہ میں تاویل سے یہ مراد لی جائے تو «فِي الْعِلْمِ» پر وقف کرنا چاہیئے، اس لیے کہ پختہ علم والے علماء جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیونکہ خطاب انہی سے ہے، گو حقائق کا علم انہیں بھی نہیں، تو اس بنا پر «آمَنَّا بِهِ» حال ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بغیر معطوف علیہ کے معطوف ہو۔
جیسے اور جگہ ہے «لِلْفُقَرَاءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ»[59۔الحشر:8] ، سے «يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ»[59۔ الحشر:10] تک دوسری جگہ ہے «وَّجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا»[89۔الفجر:22] یعنی «وجاء الملائکۃ صفوفاً صفوفاً» اور ان کی طرف سے یہ خبر کہ ہم اس پر ایمان لائے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہ پر ایمان لائے۔
پھر اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب یعنی محکم اور متشابہ حق اور سچ ہے اور یعنی ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں۔
جیسے اور جگہ ہے «اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا»[4۔النسآء:82] یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا، اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ اسے صرف عقلمند ہی سمجھتے ہیں جو اس پر غور و تدبر کریں، جو صحیح سالم عقل والے ہوں جن کے دماغ درست ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ پختہ علم والے کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی قسم سچی ہو، جس کی زبان راست گو ہو، جس کا دِل سلامت ہو، جس کا پیٹ حرام سے بچا ہو اور جس کی شرمگاہ زناکاری سے محفوظ ہو، وہ مضبوط علم والے ہیں [تفسیر ابن جریر الطبری:6635:ضعیف جداً] اور حدیث میں ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ قرآن شریف کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو تم سے پہلے لوگ بھی اسی سے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی آیتوں کو ایک دوسرے کیخلاف بتا کر اختلاف کیا حالانکہ کتاب اللہ کی ہر آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے، تم ان میں اختلاف پیدا کر کے ایک کو دوسری کے متضاد نہ کہو، جو جانو وہی کہو اور جو نہیں جانو اسے جاننے والوں کو سونپ دو [مسند احمد] [مسند احمد:2/185:حسن صحیح] اور حدیث میں ہے کہ قرآن سات حرفوں پر اترا، قرآن میں جھگڑنا کفر ہے، قرآن میں اختلاف اور تضاد پیدا کرنا کفر ہے، جو جانو اس پر عمل کرو، جو نہ جانو اسے جاننے والے کی طرف سونپو۔ جل جلالہ۔ [ایویعلیٰ] [مسند احمد:2/300: صحیح]