اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں۔
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:127/20:صحیح]
ایک اور جگہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے تین دفعہ قسم کھا کر فرمایا کہ ”اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔“ یہی قول سیدنا ابن عباس عنہما، سیدنا جابر رضی اللہ عنہم، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب، علی بن بذیمہ رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔“ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔“ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ باطل کی بات کو حق پر پسند کرلے۔ اور نقصان کی چیز کو نفع پر مقدم کر لے۔ ایک اور قول یہ بھی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے۔
چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ [سنن ترمذي:3195،قال الشيخ الألباني:حسن] امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن یزید کو ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”مراد اس سے شرک ہے۔“ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ ”ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے۔“
ایک قرأت میں «لِیَضِلَّ» ہے تو لام لام عاقبت ہو گا یا لام تعلیل ہوگا۔ یعنی امر تقدیری ان کی اس کار گزاری سے ہو کر رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنا لیتے ہیں۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہو گی اور خطرناک عذاب میں ذلیل ورسوا ہونگے۔
پھر بیان ہو رہا ہے کہ ” یہ بد نصیب جو کھیل تماشوں، باجوں گاجوں، راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے، یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کر لیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ سن بھی لیتا ہے تو بے سنی کر دیتا ہے۔ لیکن انکا سننا اسے ناگوار گزرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لیے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کر سکتا وہ تو ان سے محض بے پرواہ ہے۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے توقیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے “۔