انسان کی ترقی و تنزل پر نظر ڈالو اس کی اصل تو مٹی سے ہے، پھر نطفے سے، پھرخون بستہ سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں، پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے پھر روح پھونکی جاتی ہے پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف و نحیف ہو کر نکلتا ہے۔ پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے آخر نشوونما موقوف ہو جاتی ہے۔
اب قوی پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں ادھیڑ عمر کر پہنچتا ہے، پھر بڈھا ہوتاہے، پھر بڈھا پھوس ہو جاتا ہے۔ طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے کہ ہمت پست ہے، دیکھنا، سننا، چلنا، پھرنا، اٹھنا، اچکنا، پکڑنا غرض ہرطاقت گھٹ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہو جاتی ہیں۔ بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں۔ رخسار پچک جاتے ہیں دانت ٹوٹ جاتے ہیں بال سفید ہو جاتے ہیں۔
یہ ہے قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنیٰ کرشمے ہیں۔ ساری مخلوق اس کی غلام وہ سب کا مالک، وہ عالم و قادر، نہ اس کا سا کسی کا علم نہ اس جیسی کسی کی قدرت۔
عطیہ عوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں ”میں نے اس آیت کو «ضُعْفًا» تک ابن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھا تو، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تلاوت کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو اتنا ہی پڑھا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے لگے جس طرح میں نے تمہاری قرأت پر قرأت شروع کردی ۔ [سنن ابوداود:3978،قال الشيخ الألباني:حسن]