دنیا کی حقارت و ذلت، اس کے زوال و فنا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اسے کوئی دوام نہیں، اس کا کوئی ثبات نہیں۔ یہ تو صرف لہو و لعب ہے۔ البتہ دار آخرت کی زندگی دوام و بقا کی زندگی ہے۔ وہ زوال و فنا سے، قلت و ذلت سے دور ہے۔ اگر انہیں علم ہوتا تو اس بقا والی چیز پر اس فانی چیز کو ترجیح نہ دیتے۔
پھر فرمایا کہ مشرکین بےکسی اور بےبسی کے وقت تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کو ہی پکارنے لگتے ہیں۔ پھر مصیبت کے ہٹ جانے اور مشکل کے ٹل جانے کے بعد اس کے ساتھ دوسروں کا نام کیوں لیتے ہیں؟
جیسے اور جگہ ارشاد ہے: «وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا»[17-الإسراء:67] یعنی ” جب سمندر میں مشکل میں پھنستے ہیں، اس وقت اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہیں اور جب وہاں سے نجات پاکر خشکی میں آ جاتے ہیں تو فوراً ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔ “
سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ ابن ابی جہل یہاں سے بھاگ نکلا اور حبشہ جانے کے ارادے سے کشتی میں بیٹھ گیا۔ اتفاقاً سخت طوفان آیا اور کشتی ادھر ادھر ہونے لگی۔ جتنے مشرکین کشتی میں تھے، سب کہنے لگے: یہ موقعہ صرف اللہ ہی کو پکارنے کا ہے۔ اٹھو اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو۔ اس وقت نجات اسی کے ہاتھ ہے۔ یہ سنتے ہی عکرمہ نے کہا: سنو اللہ کی قسم! اگر سمندر کی اس بلا سے سوائے اللہ کے کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی کی مصیبتوں کا ٹالنے والا بھی وہی ہے۔ اللہ میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر میں یہاں سے بچ گیا تو سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا اور آپ کا کلمہ پڑھ لوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری خطاؤں سے درگزر فرما لیں گے اور مجھ پر رحم و کرم فرمائیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا بھی۔ [سیرة ابن اسحاق،حاکم:241/3:ضعیف]
«لِيَكْفُرُوا» اور «وَلِيَتَمَتَّعُوا» میں لام جو ہے، اسے لام عافیت کہتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا قصد دراصل یہ نہیں ہوتا اور فی الواقع ان کی طرف نظریں ڈالنے سے بات بھی یہی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے تو یہ لام تعلیل ہے۔ اس کی پوری تقریر ہم آیت «فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ»[28-القصص:8] میں کر چکے ہیں۔