یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے، جیسے اور جگہ فرمایا «قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ»[ 3-آل عمران: 29 ] کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے، وہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور فرمایا «يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى»[ 20-طه: 7 ] وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے، مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا،
جب یہ آیت اتری تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہو گا، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نماز، روزہ، جہاد، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتیٰ المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا، تمہیں چاہیئے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے تسلیم کر لیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہو گئے تو آیت «اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ»[ 2۔ البقرہ: 285 ] اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کر دیا اور آیت «لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ»[ 2۔ البقرہ: 286 ] نازل ہوئی۔ [صحیح مسلم:125:صحیح]
صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر «لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ»[ 2-البقرہ: 286 ] اتاری، [صحیح مسلم:125-126:صحیح] اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا «نعم»، یعنی میں یہی کروں گا۔ انہوں نے کہا «رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا»[ 2-البقرہ: 286 ] ، اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول، پھر کہا «رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ»[ 2-البقرہ: 286 ] اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال، اسے بھی قبول کیا گیا۔ پھر دعا مانگی «وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ»[ 2-البقرہ: 286 ] اے اللہ ہمیں معاف فرما دے، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا، یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس آیت «وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ»[ البقرہ: 284 ] کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس آیت کے اترتے یہی حال صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کا ہوا تھا، وہ سخت غمگین ہو گئے اور کہا دِلوں کے مالک تو ہم نہیں۔ دِل کے خیالات پر بھی پکڑے گئے تو یہ تو بڑی مشکل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا» کہو، چنانچہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے کہا اور بعد والی آیتیں اتریں اور عمل پر تو پکڑ طے ہوئی لیکن دِل کے خطرات اور نفس کے وسوسے سے پکڑ منسوخ ہو گئی، [مسند احمد:332/1:صحیح]
دوسرے طریق سے یہ روایت ابن مرجانہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ قرآن نے فیصلہ کر دیا کہ تم اپنے نیک و بد اعمال پر پکڑے جاؤ گے خواہ زبانی ہوں خواہ دوسرے اعضاء کے گناہ ہوں، لیکن دِلی وسواس معاف ہیں اور بھی بہت سے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے اس کا منسوخ ہونا مروی ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دِلی خیالات سے درگزر فرما لیا، گرفت اسی پر ہو گی جو کہیں یا کریں۔ [صحیح بخاری:2528:صحیح]
بخاری مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو۔ [صحیح بخاری:7501:صحیح] اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں، [صحیح مسلم:128]
اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُکے رہو جب تک کر نہ لے، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی، [صحیح مسلم:129] نیکی بڑھا دی جاتی ہے، [صحیح مسلم:131:صحیح] ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا برباد ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو، ایک مرتبہ اصحاب رضی اللہ عنہم نے آ کر عرض کیا کبھی کبھی تو ہمارے دِل میں ایسے وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے۔ [صحیح مسلم:132:صحیح]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دِلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہو گی۔ ارشاد ہے آیت «وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ»[ البقرہ: 225 ] یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دِلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دِلی شک اور دِلی نفاق کی بنا پر، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے۔ حساب لیے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کر دیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو،
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا؟ فلاں فلاں گناہ کیا؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سُن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ «هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ»[ 11-هود: 18 ] یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ [صحیح بخاری:2441]
سیدنا زید رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ اس آیت کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا ہے تب سے لے کر آج تک مجھ سے کسی شخص نے نہیں پوچھا، مگر آج تو نے پوچھا تو سُن اس سے مراد بندے کو دنیاوی تکلیفیں مثلاً بخار وغیرہ تکلیفیں پہنچانا ہے، یہاں تک کہ مثلاً ایک جیب میں نقدی رکھی اور بھول گیا، تھوڑی پریشانی ہوئی مگر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا وہاں سے نقدی مل گی، اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں، یہاں تک کہ مرنے کے وقت وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح خالص سرخ سونا ہو۔ [سنن ترمذي:2991، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ترمذی وغیرہ، یہ حدیث غریب ہے۔