پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں کو ڈرا رہا ہے کہ وہ ان سے ان کے شرک سے اور ان کے جھوٹے معبودوں سے خوب آگاہ ہے۔ انہیں ان کی شرارت کا ایسا مزہ چھکائے گا کہ یہ یاد کریں۔ انہیں ڈھیل دینے میں بھی اس کی مصلحت و حکمت ہے۔ نہ یہ کہ وہ علیم اللہ ان سے بے خبر ہو۔
ہم نے تو مثالوں سے بھی مسائل سمجھا دئیے۔ لیکن اس کے سوچنے سمجھنے کا مادہ، ان میں غوروفکر کرنے کی توفیق صرف باعمل علماء کو ہوتی ہے جو اپنے علم میں پورے ہیں۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ کی بیان کردہ مثالوں کو سمجھ لینا سچے علم کی دلیل ہے۔
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے ایک ہزار مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی سمجھی ہیں۔ (مسند احمد)[مسند احمد:203/4:ضعیف] اس سے آپ کی فضیلت اور آپ کی علمیت ظاہر ہے۔
عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کلام اللہ شریف کی جو آیت میری تلاوت میں آئے اور اس کا تفصیلی معنوں کامطلب میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا دل دکھتا ہے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرنے لگتا ہوں کہ کہیں اللہ کے نزدیک میری گنتی جاہلوں میں تو نہیں ہو گئی کیونکہ فرمان اللہ یہی ہے کہ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں لیکن سوائے عالموں کے انہیں دوسرے سمجھ نہیں سکتے۔