اوپر قارون کی سرکشی بے ایمانی کا ذکر ہو چکا یہاں اس کے انجام کا بیان ہو رہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص اپنا تہبند لٹکائے فخر سے جا رہا تھا کہ اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اسے نگل جا ۔ [صحیح بخاری:5790]
کتاب العجائب میں نوفل بن مساحق کہتے ہیں کہ نجران کی مسجد میں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا بڑا لمبا چوڑا بھرپور جوانی کے نشہ میں چور گٹھے ہوئے بدن والا بانکا ترچھا اچھے رنگ ورغن، والا خوبصورت، شکیل۔ میں نگاہیں جماکر اس کے جمال وکمال کو دیکھنے لگا تو اس نے کہا کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا آپ کے حسن و جمال کامشاہدہ کر رہا ہوں اور تعجب معلوم ہو رہا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ تو ہی کیا خود اللہ تعالیٰ کو بھی تعجب ہے۔ نوفل کہتے ہیں کہ اس کلمہ کے کہتے ہی وہ گھٹنے لگا اور اس کا رنگ روپ اڑنے لگا اور قد پست ہونے لگا یہاں تک کہ بے قدر ایک بالشت کے رہ گیا۔ آخرکار اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اپنی آستین میں ڈال کر لے گیا۔
یہ بھی مذکور ہے کہ قارون کی ہلاکت موسیٰ علیہ السلام کی بدعا سے ہوئی تھی اور اس کے سبب میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ ایک سبب تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قارون ملعون نے ایک فاحشہ عورت کو بہت کچھ مال ومتاع دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ عین اس وقت جب موسیٰ کلیم اللہ بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ کہہ رہے ہوں وہ آئے اور آپ علیہ السلام سے کہے کہ تو وہی ہے نا جس نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا۔ اس عورت نے یہی کیا موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے اور اسی وقت نماز کی نیت باندھ لی اور دو رکعت ادا کر کے اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے تجھے اس اللہ کی قسم جس نے سمندر میں سے راستہ دیا اور تیری قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دی اور بھی بہت سے احسانات کئے تو جو سچا واقعہ ہے اسے بیان کر۔
یہ سن کر اس عورت کا رنگ بدل گیا اور اس نے صحیح واقعہ سب کے سامنے بیان کر دیا اور اللہ سے استغفار کیا اور سچے دل سے توبہ کر لی۔ موسیٰ علیہ السلام پھر سجدہ میں گر گئے اور قارون کی سزا چاہی۔ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ میں نے زمین کو تیرے تابع کر دیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے سجدے سے سر اٹھایا اور زمین سے کہا کہ تو اسے اور اس کے محل کو نگل لے۔ زمین نے یہی کیا۔
دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب قارون کی سواری اس طمطراق سے نکلی سفید قیمتی خچر پر بیش بہا پوشاک پہنے سوار تھا، اس کے غلام بھی سب کے سب ریشمی لباسوں میں تھے۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے بنو اسرائیل کا مجمع تھا۔ یہ جب وہاں سے نکلا تو سب کی نگاہیں اس پر اور اس کی دھوم دھام پر لگ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسے دیکھ کر پوچھا آج اس طرح کیسے نکلے؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ ایک بات اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اور ایک فضیلت مجھے دے رکھی ہے اگر تمہارے پاس نبوت ہے تو میرے پاس یہ جاہ وحشم ہے اور اگر آپ کو میری فضیلت پر شک ہو تو میں تیار ہوں کہ آپ اور میں چلیں اور اللہ سے دعا کریں۔ دیکھ لیجئے کہ اللہ کس کی دعا قبول فرماتا ہے۔
آپ علیہ السلام اس بات پر آمادہ ہو گئے اور اس کو لے کر چلے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے تو دعا کرتا ہے یا میں کروں؟ اس نے کہا نہیں میں کرونگا اب اس نے دعا مانگنی شروع کر دی اور ختم ہو گئی لیکن دعا قبول نہ ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اب دعا میں کرتا ہوں اس نے کہا ہاں کیجئے۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ زمین کو حکم دے کہ جو میں کہوں مان لے اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی کہ میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے یہ سن کر زمین سے فرمایا اے زمین! اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اور پکڑے لے۔ یہ اپنے گھٹنوں تک دھنس گئے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اور پکڑ یہ مونڈھوں تک زمین میں دھنس گئے۔ پھر فرمایا ان کے خزانے اور مال بھی یہیں لے آ۔ اسی وقت ان کے کل خزانے اور مال وہاں آ گئے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان سب کو دیکھ لیا پھر آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ان کو ان کے خزانوں سمیت اپنے اندر کر لے اسی وقت یہ سب غارت ہوگئے اور زمین جیسی تھی ویسی ہوگئی۔
مروی ہے کہ ساتوں زمین تک یہ لوگ بقدر انسان دھنستے جا رہے ہیں قیامت تک اسی عذاب میں رہیں گے۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی اور بہت سی روایتیں ہیں لیکن ہم نے ان کا ذکر یہاں چھوڑ دیا ہے۔
نہ تو مال ان کے کام آیا نہ جاہ و حشم نہ دولت وتمکنت نہ کوئی ان کی مدد کے لیے اٹھا نہ یہ خود اپنا کوئی بچاؤ کر سکے۔ تباہ ہو گئے بینشان ہو گئے مٹ گئے اور مٹادئیے گئے «اعاذنا الله» اس وقت تو ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھل گئی جو قارون کی دولت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اور اسے نصیب دار سمجھ کر لمبے سانس لیا کرتے تھے اور رشک کیا کرتے تھے کہ کاش ہم ایسے دولت مند ہوتے۔ وہ کہنے لگے اب دیکھ لیا کہ واقعی سچ ہے دولت مند ہونا کچھ اللہ کی رضا مندی کا سبب نہیں۔ یہ اللہ کی حکمت ہے جسے چاہے زیادہ دے جسے چاہے کم دے۔ جس پر چاہے وسعت کرے جس پر چاہے تنگ کرے۔ اس کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔
ایک حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں اخلاق کی بھی اسی طرح تقسیم کی ہے جس طرح روزی کی۔ مال تو اللہ کی طرف سے اس کے دوستوں کو بھی ملتا ہے اور اس کے دشمنوں کو بھی۔ البتہ ایمان اللہ کی طرف سے اسی کو ملتا ہے جسے اللہ چاہتا ہو ۔ [مسند احمد:387/1:صحیح موقوف فی حکم المرفوع]
قارون کے اس دھنسائے جانے کو دیکھ کر وہ جو اس جیسا بننے کی امیدیں کر رہے تھے کہنے لگے اگر اللہ کا لطف واحسان ہم پر نہ ہوتا تو ہماری اس تمناکے بدلے جو ہمارے دل میں تھی کہ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوتے۔ آج اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے ساتھ دھنسا دیتا۔ وہ کافر تھا اور کافر اللہ کے ہاں فلاح کے لائق نہیں ہوتے۔ نہ انہیں دنیا میں کامیابی ملے نہ آخرت میں ہی وہ چھٹکارا پائیں۔
نحوی کہتے ہیں «وَیْکَاَنَّ» کے معنی «وَیْلَكَ اِعْلَمْ اَنَّ» ہیں لیکن مخفف کر کے «وَیْکَ» رہ گیا اور «اَنْ» کے فتح نے «اِعْلَمْ» کے محذوف ہونے پر دلالت کر دی۔ لیکن اس قول کو امام ابن جریر نے ضعیف بتایا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں یہ ضعیف کہنا ٹھیک نہیں۔ قرآن کریم میں اس کی کتابت کا ایک ساتھ ہونا اس کے ضعیف ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ کتابت کا طریقہ تو اختراعی امر ہے جو رواج پا گیا وہی معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اس سے معنی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
دوسرے معنی اس کے «اَلَمْ تَرَاَنَّ» کے لیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح یہ دو لفظ ہیں «وَیْ» اور «کَاَنَّ» ۔ حرف «وَیْ» تعجب کے لیے ہیں اور یا تنبیہہ کے لیے اور «کَاَنَّ» معنی میں «اَظُنُّ» کے ہے۔ ان تمام اقوال میں قوی قول یہ ہے کہ یہ معنی میں «اَلَمْ تَرَ» کے ہے یعنی کیا نہ دیکھا تو نے جیسے کہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے اور یہی معنی عربی شعر میں بھی مراد لیے گئے ہیں۔