حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہو چکا ہے۔ [2-البقرة:1] یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام کاموں کی اصلیت اب گزشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں۔
جیسے اور آیت میں ہے «نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ»[12-يوسف:3] ” ہم تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں “۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے کے وقت وہیں موجود تھا۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بد دماغ انسان تھا اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جما رکھا تھا اور انہیں آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈلوا کر انہیں کمزور کر کے خود ان پر جبر و تعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا۔ خصوصاً بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست و نابود کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور دن رات یہ بیچارے بیکار میں گھسیٹے جاتے تھے۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ اولاد کو قتل کروا ڈالتا تھا تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں قوت والے نہ ہو جائیں اور اس لیے بھی کہ یہ ذلیل و خوار رہیں اور اس لیے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے۔
بات یہ ہے کہ جب ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مصر کی حکومت میں سے مع اپنی بیوی صاحبہ سارہ رضی اللہ عنہا کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش بادشاہ نے سارہ رضی اللہ عنہا کو لونڈی بنانے کے لیے آپ علیہ السلام سے چھین لیا جنہیں اللہ نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ علیہ السلام پر دست درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت ابراہیم علیہ السلام نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ ”تیری اولاد میں سے ایک کی اولاد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہلاک ہو گا۔“
چونکہ یہ روایت چلی آ رہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی، انہوں نے دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ قانوں بنا دیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کر دئے جائیں اور ان کی بچیاں چھوڑ دی جائیں۔
لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے موسیٰ علیہ السلام زندہ رہ گئے اور اللہ نے آپ علیہ السلام کے ہاتھوں اس عادی سرکش کوذلیل وخوار کیا۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
چنانچہ فرمان ہے کہ ” ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم کرنا چاہا “۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت کا پورا ہونا یقینی ہے۔
جیسے فرمایا آیت «وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ»[7-الاعراف:137] ۔ آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان کی تمام چیزوں کا مالک بنا دیا۔ فرعون نے اپنی تمام ترطاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اسے اللہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بےگناہ بچوں کا خون ناحق بہایا تھا۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کی گود میں پلوایا، پروان چڑھایا، اور اسی کے ہاتھوں اس کا اس کے لشکر کا اور اس کے ملک و مال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے کہ وہ اللہ کا ذلیل مسکین بے دست و پا غلام تھا اور رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں آ سکتی۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی اور فرعون جس سے خائف تھا وہ سامنے آ گیا اور تباہ و برباد ہوا۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»