اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرا دیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں۔ یہاں استثناء منقطع ہے یعنی سوائے اللہ کے کوئی انسان جن فرشتہ غیب دان نہیں۔ جیسے فرمان ہے «وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ» [6-الأنعام:59] ” یعنی غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “
اور فرمان ہے «اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ»[31-لقمان:34] ” اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ “ وہی بارش برساتا ہے وہی مادہ کے پیٹ کے بچے سے واقف ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا نہ کسی کو یہ خبر کہ وہ کہاں مرے گا؟ علیم وخبیر صرف اللہ ہی ہے۔
اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔ مخلوق تو یہ بھی نہیں جانتی کہ قیامت کب آئے گی۔ آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں میں سے ایک بھی واقف نہیں کہ قیامت کا دن کون سا ہے؟ جیسے فرمان ہے آیت «ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ»[7-الأعراف:187] سب پر یہ علم مشکل ہے اور بوجھل ہے وہ تو اچانک آ جائے گی۔
سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے جو کہے کہ حضور کل کائنات کی بات جانتے تھے اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں۔ [صحیح مسلم:177]
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں تین فائدے رکھے ہیں۔ آسمان کی زینت بھولے بھٹکوں کی رہبری اور شیطانوں کی مار۔ کسی اور بات کا ان کے ساتھ عقیدہ رکھنا اپنی رائے سے بات بنانا اور خود ساختہ تکلیف اور اپنی عاقبت کے حصہ کو کھونا ہے۔
جاہلوں نے ستاروں کے ساتھ علم نجوم کو متعلق رکھ کر فضول باتیں بنائی ہیں کہ اس ستارے کے وقت جو نکاح کرے یوں ہو گا فلاں ستارے کے موقعہ پر سفر کرنے سے یہ ہوتا ہے فلاں ستارے کے وقت جو تولد ہوا وہ ایسا وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب ڈھکوسلے ہیں ان کی بکواس کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے ہر ستارے کے وقت کالا گورا ٹھنگنا لمبا خوبصورت بد شکل پیدا ہوتا ہی رہتا ہے۔ نہ کوئی جانور غیب جانے نہ کسی پرند سے غیب حاصل ہو سکے نہ ستارے غیب کی رہنمائی کریں۔
سنو اللہ کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ آسمان و زمیں کی کل مخلوق غیب سے بےخبر ہے۔ انہیں تو اپنے جی اٹھنے کا وقت بھی نہیں معلوم ہے [ ابن ابی حاتم ] سبحان اللہ قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول کتنا صحیح کس قدر مفید اور معلومات سے پر ہے۔
فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے علم آخرت کے وقت کے جاننے سے قاصر ہیں عاجز ہو گئے ہیں۔ ایک قرأت میں «بل ادرک» ہے یعنی سب کے علم آخرت کا صحیح وقت نہ جاننے میں برابر ہیں۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرا اور تیرا دونوں کا علم اس کے جواب سے عاجز ہے۔ [صحیح مسلم:94-93]
پس یہاں بھی فرمایا کہ آخرت سے ان کے علم غائب ہیں۔ چونکہ کفار اپنے رب سے جاہل ہیں اس لیے آخرت کے بھی منکر ہیں۔ وہاں تک ان کے علم پہنچتے ہی نہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آخرت میں ان کو علم حاصل ہو گا لیکن بےسود ہے۔ جیسے اور جگہ بھی ہیں کہ جس دن یہ ہمارے پاس پہنچے گے بڑے ہی دانا وبینا ہو جائیں گے۔ لیکن آج ظالم کھلی گمراہی میں ہونگے۔
پھر فرماتا ہے کہ بلکہ یہ تو شک ہی میں ہیں اس سے مراد کافر ہے جیسے فرمان ہے «وَعُرِضُوا عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًا» [18-الكهف:48] ” یعنی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہم نے جس طرح تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب ہم تمہیں دوبارہ لے آئے ہیں۔ “
لیکن تم تو یہ سمجھتے رہے کہ قیامت تو کوئی چیز ہی نہیں۔ مراد یہ ہے کہ تم میں سے کافر یہ سمجھتے رہے۔ پس مندرجہ بالا آیات بھی گو ضمیر جنس کی طرف لوٹتی ہے لیکن مراد کفار ہی ہیں اسی لیے آخر میں فرمایا کہ یہ تو اس سے اندھاپے میں ہیں، نابینا ہو رہے ہیں، آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔