صحیح بخاری شریف میں ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا اللہ زیادہ جاننے والا، آپ رضی اللہ عنہما نے ناراض ہو کر فرمایا تم جانتے ہو یا نہیں؟ اس کا صاف جواب دو، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا امیر المؤمنین میرے دِل میں ایک بات ہے آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بھتیجے کہو اور اپنے نفس کو اتنا حقیر نہ کرو، فرمایا ایک عمل کی مثال دی گئی ہے، پوچھا کون سا عمل؟ کہا ایک مالدار شخص جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام کرتا ہے پھر شیطان اسے بہکاتا ہے اور وہ گناہوں میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنے نیک اعمال کو کھو دیتا ہے، [صحیح بخاری:4538] پس یہ روایت اس آیت کی پوری تفسیر ہے اس میں بیان ہو رہا ہے کہ ایک شخص نے ابتداء اچھے عمل کئے پھر اس کے بعد اس کی حالت بدل گئی اور برائیوں میں پھنس گیا اور پہلے کی نیکیوں کا ذخیرہ برباد کر دیا، اور آخری وقت جبکہ نیکیوں کی بہت زیادہ ضرورت تھی یہ خیال ہاتھ رہ گیا، جس طرح ایک شخص ہے جس نے باغ لگایا پھل اتارتا ہو، لیکن جب بڑھاپے کے زمانہ کو پہنچا چھوٹے بچے بھی ہیں آپ کسی کام کاج کے قابل بھی نہیں رہا، اب مدارِ زندگی صرف وہ ایک باغ ہے اتفاقاً آندھی چلی پھر برائیوں پر اتر آیا اور خاتمہ اچھا نہ ہوا تو جب ان نیکیوں کے بدلے کا وقت آیا تو خالی ہاتھ رہ گیا۔ کافر شخص بھی جب اللہ کے ہاں جاتا ہے تو وہاں تو کچھ کرنے کی طاقت نہیں جس طرح اس بڈھے کو، اور جو کیا ہے وہ کفر کی آگ والی آندھی نے برباد کر دیا، اب پیچھے سے بھی کوئی اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا جس طرح اس بڈھے کی کم سن اولاد اسے کوئی کام نہیں دے سکتی۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1074/4]
مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یہ بھی تھی «اَللَّھُمَ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِبَرِ سِنِّی وَ انْقِطَاعِ عُمُرِی» اے اللہ اپنی روزی کو سب سے زیادہ مجھے اس وقت عنایت فرما جب میری عمر بڑی ہو جائے اور ختم ہونے کو آئے۔ [مستدرک حاکم:542/1:ضعیف]
اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے یہ مثالیں بیان فرما دیں، تم بھی غور و فکر تدبر و تفکر کرو، سوچو سمجھو اور عبرت و نصیحت حاصل کرو جیسے فرمایا «وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ»[29-العنكبوت:43] ان مثالوں کو ہم نے لوگوں کیلئے بیان فرما دیا۔ انہیں علماء ہی خوب سمجھ سکتے ہیں۔