حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان پر پوری بحث سورۃ البقرہ کے شروع میں ہم کر چکے ہیں۔ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم جو کھلی ہوئی واضح روشن اور ظاہر کتاب ہے۔ یہ اس کی آیتیں ہیں جو مومنوں کے لیے ہدایت وبشارت ہیں۔ کیونکہ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی اتباع کرتے ہیں اسے سچا جانتے ہیں اس میں حکم احکام ہیں ان پر عمل کرتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو نمازیں صحیح طور پر پڑھتے ہیں فرضوں میں کمی نہیں کرتے اسی طرح فرض زکوٰۃ کو بھی نہیں روکتے، دار آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں موت کے بعد کی زندگی اور جزا سزا کو بھی مانتے ہیں۔ جنت ودوزخ کو حق جانتے ہیں۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے کہ ایمانداروں کے لیے تو یہ قرآن ہدایت اور شفاہے اور بے ایمانوں کے کان تو بہرے ہیں ان میں روئی دئیے ہوئے ہیں۔
اس سے خوشخبری پرہیزگاروں کو ہے اور بدکرداروں کو اس میں ڈراوا ہے۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جو اسے جھٹلائیں اور قیامت کے آنے کو نہ مانیں ہم بھی انہیں چھوڑ دیتے ہیں ان کی برائیاں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں۔ اسی میں وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے رہتے ہیں اور اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے رہتے ہیں۔ ان کی نگاہیں اور دل الٹ جاتے ہیں انہیں دنیا اور آخرت میں بدترین سزائیں ہونگی اور قیامت کے دن تمام اہل محشر میں سب سے زیادہ خسارے میں یہی رہیں گے
بیشک آپ اے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ہی قرآن لے رہے ہیں۔ ہم حکیم ہیں امرو نہی کی حکمت کو بخوبی جانتے ہیں علیم ہیں چھوٹے بڑے تمام کاموں سے بخوبی خبردار ہیں۔ پس قرآن کی تمام خبریں بالکل صدق وصداقت والی ہیں اور اس کے حکم احکام سب کے سب سراسر عدل والے ہیں جیسے فرمان ہے آیت «وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ» [6-الأنعام:1] [6-الأنعام:115]