تفسير ابن كثير



باب

یہ آیت آیت الکرسی ہے، جو بڑی عظمت والی آیت ہے۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہما جواب دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر یہی سوال کرتے ہیں، بار بار کے سوال پر جواب دیتے ہیں کہ آیت الکرسی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابوالمنذر اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی زبان ہو گی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہو گی، [ مسند احمد 141/5-142] ‏‏‏‏

صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے لیکن یہ پچھلا قسمیہ جملہ اس میں نہیں، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے ہاں ایک کھجور کی بوری تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں سے کھجوریں روز بروز گھٹ رہی ہیں، ایک رات میں جاگتا رہا اس کی نگہبانی کرتا رہا، میں نے دیکھا ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا، میں نے اسے سلام کیا اس نے میرے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں، میں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دے، اس نے ہاتھ بڑھا دیا، میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے ہی بال تھے، میں نے کہا کیا جنوں کی پیدائش ایسی ہی ہے؟ اس نے کہا تمام جنات میں سب سے زیادہ قوت طاقت والا میں ہی ہوں، میں نے کہا بھلا تو میری چیز چرانے پر کیسے دلیر ہو گیا؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تو صدقہ کو پسند کرتا ہے، ہم نے کہا پھر ہم کیوں محروم رہیں؟ میں نے کہا تمہارے شر سے بچانے والی کون سی چیز ہے؟ اس نے کہا آیت الکرسی۔ صبح کو جب میں سرکارِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو میں نے رات کا سارا واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبیث نے یہ بات تو بالکل سچ کہ۔ [مستدرک حاکم562/1] ‏‏‏‏، ایک بار مہاجرین کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی آیت کون سی بڑی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت الکرسی پڑھ کر سنائی۔ [ طبرانی کبیر334/1 ] ‏‏‏‏

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک سے پوچھا تم نے نکاح کر لیا؟ اس نے کہا میرے پاس مال نہیں، اس لیے نکاح نہیں کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» [ 112-الاخلاص: 1 ] ‏‏‏‏ یاد نہیں؟ اس نے کہا وہ تو یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن تو یہ ہو گیا، کیا «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» [ 109-الکافرون: 1 ] ‏‏‏‏ یاد نہیں، کہا ہاں وہ بھی یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، پھر پوچھا کیا «إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا» [ 99-الزلزلہ: 1 ] ‏‏‏‏ بھی یاد ہے؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، کیا «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ» [ 110-النصر: 1 ] ‏‏‏‏ بھی یاد ہے؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی یہ، کہا آیت الکرسی «اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» [ 2-البقرہ: 255 ] ‏‏‏‏ یاد ہے؟ کہا ہاں فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا [ مسند احمد221/3ضعیف ] ‏‏‏‏

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا اٹھو نماز ادا کر لو۔ میں نے نماز پڑھی پھر آ کر بیٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوذر شیطان انسانوں اور جنوں سے پناہ مانگ، میں نے کہا حضور کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ فرمایا ہاں، میں نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا وہ سراسر خیر ہے جو چاہے کم حصہ لے جو چاہے زیادہ، میں نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم روزہ؟ فرمایا کفایت کرنے والا فرض ہے اور اللہ کے نزدیک زیادتی ہے، میں نے کہا صدقہ؟ فرمایا بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر بدلہ دلوانے والا، میں نے کہا سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا کم مال والے کا ہمت کرنا یا پوشیدگی سے محتاج کی احتیاج پوری کرنا، میں نے سوال کیا سب سے پہلے نبی کون ہیں؟ فرمایا آدم علیہ السلام، میں نے کہا وہ نبی تھے؟ فرمایا نبی اور اللہ سے ہمکلام ہونے والے، میں نے پوچھا رسولوں کی تعداد کیا ہے؟ فرمایا تین سو اور کچھ اوپر دس، بہت بڑی جماعت۔ ایک روایت میں تین سو پندرہ کا لفظ ہے،میں نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر سب سے زیادہ بزرگی والی آیت کون سی اتری؟ فرمایا آیت الکرسی «اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» [ 2-البقرہ: 255 ] ‏‏‏‏الخ، [ مسند احمد 178/5:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے خزانہ میں سے جنات چرا کر لے جایا کرتے تھے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو اسے دیکھے تو کہنا «بسم اللہ اجیبی رسول اللہ» جب وہ آیا میں نے یہی کہا، پھر اسے چھوڑ دیا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پھر بھی آئے گا، میں نے اسے اسی طرح دو تین بار پکڑا اور اقرار لے لے کر چھوڑا دیا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ وہ پھر بھی آئے گا، آخر مرتبہ میں نے کہا اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا، اس نے کہا چھوڑ دے میں تجھے ایک ایسی چیز بتاؤں گا کہ کوئی جن اور شیطان تیرے پاس ہی نہ آ سکے، میں نے کہا اچھا بتاؤ، کہا وہ آیت الکرسی ہے۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذِکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا، گو وہ جھوٹا ہے۔ [ مسند احمد423/5:صحیح ] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں «کتاب فضائل القرآن اور کتاب الوکالہ» اور «صفۃ ابلیس» کے بیان میں بھی یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں ہے کہ زکوٰۃ رمضان کے مال پر میں پہرہ دے رہا تھا جو یہ شیطان آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا، تیسری مرتبہ اس نے بتایا کہ اگر تو رات بستر پر جا کر اس آیت کو پڑھ لے گا تو اللہ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہو گا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آ سکے گا۔ [ صحیح بخاری:2311 ] ‏‏‏‏ دوسری روایت میں ہے کہ یہ کھجوریں تھیں اور مٹھی بھر وہ لے گیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اسے پکڑنا چاہے تو جب وہ دروازے کھولے کہنا «سبحان من سخرک محمد» شیطان نے عذر یہ بتایا تھا کہ ایک فقیر جن کے بال بچوں کیلئے میں یہ لے جا رہا تھا۔ [سنن الکبری: 10793:جید] ‏‏‏‏ پس یہ واقعہ تین صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہوا، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا، سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انسان کی ایک جن سے ملاقات ہوئی جن نے کہا مجھ سے کشتی کرے گا؟ اگر مجھے گرا دے گا تو میں تجھے ایک ایسی آیت سکھاؤں گا کہ جب تو اپنے گھر جائے اور اسے پڑھ لے تو شیطان اس میں نہ آ سکے، کشتی ہوئی اور اس آدمی نے جن کو گرا دیا، اس شخص نے جن سے کہا تو تو نحیف اور ڈرپوک ہے اور تیرے ہاتھ مثل کتے کے ہیں، کیا جنات ایسے ہی ہوتے ہیں یا صرف تو ہی ایسا ہے؟ کہا میں تو ان سب میں سے قوی ہوں، پھر دوبارہ کشتی ہوئی اور دوسری مرتبہ بھی اس شخص نے گرا دیا تو جن نے کہا جو آیت میں نے سکھانے کیلئے کہا تھا وہ آیت الکرسی ہے، جو شخص اپنے گھر میں جاتے ہوئے اسے پڑھ لے تو شیطان اس گھر سے گدھے کی طرح چیختا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جس شخص سے کشتی ہوئی تھی وہ شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ [کتاب الغریب] ‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سورۃ البقرہ میں ایک آیت ہے جو قرآن کریم کی تمام آیتوں کی سردار ہے جس گھر میں وہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ وہ آیت، آیت الکرسی ہے [مستدرک حاکم560/1] ‏‏‏‏ ترمذی میں ہے ہرچیز کی کوہان اور بلندی ہے اور قرآن کی بلندی سورۃ البقرہ ہے اور اس میں بھی آیت الکرسی تمام آیتوں کی سردار ہے۔ [سنن ترمذي2878، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس سوال پر کہ سارے قرآن میں سب سے زیادہ بزرگ آیت کون سی ہے؟ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ آیت آیت الکرسی ہے [میزان اعتدال 475/2ضعیف] ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ ایک تو آیت الکرسی، دوسری آیت «الم» «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» [ 3-آل عمران: 1-2 ] ‏‏‏‏ [سنن ابوداود1496، قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ وہ اسمِ اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے۔ وہ تین سورتوں میں ہے، سورۃ البقرہ، سورۃ آل عمران اور سورۃ طہٰ۔ [سنن ابن ماجه3856، قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ ہشام بن عمار خطیب دمشق فرماتے ہیں سورۃ البقرہ کی آیت آیت الکرسی ہے اور آل عمران کی پہلی ہی آیت اور طہٰ کی آیت «وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ» [ 20-طحہ: 111 ] ‏‏‏‏ ہے اور حدیث میں ہے جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے [سنن نسائی:100، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اس حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں وارد کیا ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے اپنی صحیح میں وارد کیا ہے اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے لیکن ابوالفرج بن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ»،

تفسیر ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہے۔ ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، جو شخص یہ کرے گا میں اسے شکر گزار دِل اور ذِکر کرنے والی زبان دوں گا۔ اور اسے نبیوں کا ثواب اور صدیقوں کا عمل دوں گا۔ جس عمل کی پابندی صرف انبیاء او صدیقین سے ہی ہوتی ہے یا اس بندے سے جس کا دِل میں نے ایمان کیلئے آزما لیا ہو یا اسے اپنی راہ میں شہید کرنا طے کر لیا ہو [ ضعیف] ‏‏‏‏، لیکن یہ حدیث بہت منکر ہے۔

ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص سورۃ [حم] ‏‏‏‏ [المومن ] ‏‏‏‏ کو «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ» [ 40-الغافر: 3 ] ‏‏‏‏ تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا وہ شام تک اللہ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہو گی [سنن ترمذي:2879، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث بھی غریب ہے۔ اس آیت کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں لیکن ایک تو اس لیے کہ ان کی سندیں ضعیف ہیں اور دوسرے اس لیے بھی کہ ہمیں اختصار مدنظر ہے، ہم نے انہیں وارد نہیں کیا۔

اس مبارک آیت میں دس مستقل جملے، پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا بیان ہے کہ کل مخلوق کا وہی ایک اللہ ہے۔ دوسرے جملے میں ہے کہ وہ خود زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔ قیوم کی دوسری نشانی قرأت «قیام» بھی ہے پس تمام موجودات اس کی محتاج ہے او وہ سب سے بے نیاز ہے، کوئی بھی بغیر اس کی اجازت کے کسی چیز کا سنبھالنے والا نہیں، جیسے اور جگہ ہے «وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ» [ 30-الروم: 25 ] ‏‏‏‏ «بِأَمْرِهِ» یعنی اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر فرمایا نہ تو اس پر کوئی نقصان آئے نہ کبھی وہ اپنی مخلوق سے غافل اور بے خبر ہو، بلکہ ہر شخص کے اعمال پر وہ حاضر، ہر شخص کے احوال پر وہ ناظر، دل کے ہر خطرے سے وہ واقف، مخلوق کا کوئی ذرہ بھی اس کی حفاظت اور علم سے کبھی باہر نہیں، یہی پوری قیومیت ہے۔

اونگھ، غفلت، نیند اور بے خبری سے اس کی ذات مکمل پاک ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کھڑے ہو کر صحابہ کرام کو چار باتیں بتائیں، فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ سوتا نہیں، نہ نیند اس کی ذات کے لائق ہے، وہ ترازو کا حافظ ہے جس کیلئے چاہے جھکا دے، جس کیلئے چاہے نہ جھکائے، دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف لے جائے جاتے ہیں، اس کے سامنے نور یا آگ کے پردے ہیں اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچے۔ [صحیح مسلم:179] ‏‏‏‏۔

عبدالرزاق میں عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ سوتا بھی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ علیہ السلام کو تین راتوں تک بیدار رکھیں، انہوں نے یہی کیا، تین راتوں تک سونے نہ دیا، اس کے بعد دو بوتلیں ان کے ہاتھوں میں دے دیں گئیں اور کہہ دیا کہ انہیں تھامے رہو خبردار یہ گرنے اور ٹوٹنے نہ پائیں، آپ علیہ السلام نے انہیں تھام لیا لیکن اجاگا تھا، نیند کا غلبہ ہوا، اونگھ آنے لگی، آنکھ بند ہو جاتی لیکن پھر ہوشیار ہو جاتے مگر کب تک؟ آخر ایک مرتبہ ایسا جھکولا آیا کہ بوتلیں ٹوٹ گئیں، گویا انہیں بتایا گیا کہ جب ایک اونگھنے اور سونے والا دو بوتلوں کو نہیں سنبھال سکتا تو اللہ تعالیٰ اگر اونگھے یا سوئے تو زمین و آسمان کی حفاظت کس طرح ہو سکے؟ [تفسیر ابن جریر الطبری:5782:حسن] ‏‏‏‏ لیکن یہ بنی اسرائیل کی بات ہے اور کچھ دِل کو لگتی بھی نہیں اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر عارف باللہ، اللہ جل شانہ کی اس صفت سے ناواقف ہوں اور انہیں اس میں تردد ہو کہ اللہ ذوالجلال و الاکرام جاگتا ہی رہتا ہے یا سو بھی جاتا ہے۔

اور اس سے بھی بہت زیادہ غرابت والی وہ حدیث ہے جو ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو منبر پر بیان فرمایا۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فرمان پیغمبر ہونا ثابت نہیں بلکہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ سوال کیا تھا اور پھر آپ علیہ السلام کو بوتلیں پکڑوائی گئیں اور وہ بوجہ نیند کے نہ سنبھال سکے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی،

آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی غلامی میں اور اس کی ماتحتی میں اور اس کی سلطنت میں ہیں جیسے فرمایا «إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا» [ 19-مریم: 93-95 ] ‏‏‏‏، یعنی زمین و آسمان کی کل چیزیں رحمٰن کی غلامی میں حاضر ہونے والی ہیں، ان سب کو رب العالمین نے ایک ایک کر کے گن رکھا ہے۔ ساری مخلوق تنہا تنہا اس کے پاس حاضر ہو گی، کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش یا شفاعت کر سکے، جیسے ارشاد ہے «وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّـهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ» [ 53-النجم: 26 ] ‏‏‏‏، یعنی آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں لیکن ان کی شفاعت بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی سے ہو۔

، اور جگہ ہے «وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ» [ 21- الأنبياء: 28 ] ‏‏‏‏ کسی کی وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ خوش ہو، پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کا جلال اور اس کی کبریائی بیان ہو رہی ہے، کہ بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش میں زبان کھولے، حدیث شفاعت میں بھی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے نیچے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں ہی چھوڑ دے گا جب تک چاہے، پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ، کہو، سنا جائے گا، شفاعت کرو، منظور کی جائے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا۔ [صحیح بخاری:7440] ‏‏‏‏

وہ اللہ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ کا عالم ہے اس کا علم تمام مخلوق کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے جیسے اور جگہ فرشتوں کا قول ہے کہ «وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا» [ 19-مریم: 64 ] ‏‏‏‏، ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر اتر نہیں سکتے ہمارے آگے پیچھے اور سامنے سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور تیرا رب بھول چوک سے پاک ہے۔

کرسی سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے علم منقول ہے، دوسرے بزرگوں سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مروی ہے، اور یہ بھی ہے کہ اس کا اندازہ بجر باری تعالٰی کے کسی اور کو معلوم نہیں، خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے , [خطیب بغداد251/9موقوف] ‏‏‏‏

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعاً یہی مروی ہے لیکن رفع ثابت نہیں، ابومالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کرسی عرش کے نیچے ہے، سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں آسمان و زمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلا دئیے جائیں اور سب کو ملا کر بسیط کر دیا جائے تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹیل میدان میں, [تفسیر ابن جریر الطبری:5895:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں اور حدیث میں کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک لوہے کا حلقہ چٹیل میدان میں، سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کرسی کے بارے میں سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر یہی فرمایا اور فرمایا کہ پھر عرش کی فضیلت کرسی پر بھی ایسی ہی ہے، ایک عورت نے آن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں لے جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی کرسی نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے مگر جس طرح نیا پالان چرچراتا ہے وہ کرسی عظمت پروردگار سے چرچرا رہی ہے، گو یہ حدیث بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے لیکن کسی سند میں کوئی راوی غیرمشہور ہے کسی میں ارسال ہے، کوئی موقوف ہے، کسی میں بہت کچھ غریب زیادتی ہے، کسی میں حذف ہے اور ان سب سے زیادہ غریب سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جو ابوداؤد میں مروی ہے [سنن ابوداود:4726، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏۔ اور وہ روایات بھی ہیں جن میں قیامت کے روز کرسی کا فیصلوں کیلئے رکھا جانا مروی ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذِکر نہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ»

مسلمانوں کے ہئیت دان متکلمین کہتے ہیں کہ کرسی آٹھواں آسمان ہے جسے فلک ثوابت کہتے ہیں اور جس پر نواں آسمان ہے اور جسے فلک اثیر کہتے ہیں اور اطلس بھی، لیکن دوسرے لوگوں نے اس کی تردید کی ہے، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کرسی ہی عرش ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کرسی اور ہے اور عرش اور ہے، جو اس سے بڑا ہے جیسا کہ آثار احادیث میں وارد ہوا ہے، علامہ ابن جریر رحمہ اللہ تو اس بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی روایت پر اعتماد کئے ہوئے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی صحت میں کلام ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»

پھر فرمایا کہ اللہ پر ان کی حفاظت بوجھل اور گراں نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے۔ وہ ساری مخلوق کے اعمال پر خبردار تمام چیزوں پر نگہبان کوئی چیز اس سے پوشیدہ اور انجان نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے، تمام مخلوق اس کے سامنے حقیر متواضع ذلیل پست محتاج اور فقیر، وہ غنی وہ حمید وہ جو کچھ چاہے کر گزرنے والا، کوئی اس پر حاکم نہیں بازپرس کرنے والا، ہرچیز پر وہ غالب، ہرچیز کا حافظ اور مالک، وہ علو، بلندی اور رفعت والا وہ عظمت بڑائی اور کبریائی والا، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی خبرگیری کرنے والا نہ پالنے پوسنے والا «عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ» [ 13-الرعد: 9 ] ‏‏‏‏ وہ کبریائی والا اور فخر والا ہے، اسی لیے فرمایا «وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ» بلندی اور عظمت والا وہی ہے۔ یہ آیتیں اور ان جیسی اور آیتیں اور صحیح حدیثیں جتنی کچھ ذات و صفات باری تعالیٰ میں وارد ہوئی ہیں ان سب پر ایمان لانا بغیر کیفیت معلوم کئے اور بغیر تشبیہ دئیے جن الفاظ میں وہ وارد ہوئی ہیں ضروری ہے اور یہی طریقہ ہمارے سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.