اب واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ جب ان لوگوں نے طالوت کی بادشاہت تسلیم کر لی اور وہ انہیں لے کر جہاد کو چلے، سدی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ان کی تعداد اسی ہزار تھی [تفسیر ابن جریر الطبری:339/5] ، راستے میں طالوت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ساتھ آزمانے والا ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی [تفسیر ابن جریر الطبری:340/5] اس کا نام نہر الشریعہ تھا، طالوت نے انہیں ہوشیار کر دیا کہ کوئی اس نہر کا پانی نہ پیئے، اگر پی لے گا تو میرے ساتھ نہ چلے، ایک آدھ گھونٹ اگر کسی نے پی لی تو کچھ حرج نہیں، لیکن جب وہاں پہنچے پیاس کی شدت تھی، نہر پر جھک پڑے اور خوب پیٹ بھر کر پانی پی لیا مگر کچھ لوگ ایسے پختہ ایمان والے بھی تھے کہ جنہوں نے نہ پیا ایک چلو پی لیا،
بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک چلو پینے والوں کی تو پیاس بھی بجھ گئی اور وہ جہاد میں بھی شامل رہے لیکن پوری پیاس پینے والوں کی نہ تو پیاس بجھی نہ وہ قابل جہاد رہے، سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسی ہزار میں سے چھہتر ہزار نے پانی پی لیا صرف چار ہزار آدمی حقیقی فرمانبردار نکلے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بدر کی لڑائی والے دن ہماری تعداد اتنی ہی تھی جتنی تعداد طالوت بادشاہ کے اس فرمانبردار لشکر کی تھی، جو آپ کے ساتھ نہر سے پار ہوا تھا۔ [صحیح بخاری:3957] یعنی تین سو تیرہ یہاں سے پار ہوتے ہی نافرمانوں کے چھکے چھوٹ گئے اور نہایت بزدلانہ پن سے انہوں نے جہاد سے انکار کر دیا اور دشمنوں کی زیادتی نے ان کے حوصلے توڑ دئیے، صاف جواب دے بیٹھے کہ آج تو ہم جالوت کے لشکر سے لڑنے کی طاقت اپنے میں نہیں پاتے، گو سرفروش مجاہد علماء کرام نے انہیں ہر طرح ہمت بندھوائی، وعظ کہے، فرمایا کہ قلت و کثرت پر فتح موقوف نہیں صبر اور نیک نیتی پر ضرور اللہ کی امداد ہوتی ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے بڑی بڑی جماعتوں کو نیچا دکھا دیا ہے، تم صبر کرو، طبیعت میں استقلال اور عزم رکھو، اللہ کے وعدوں پر نظریں رکھو، اس صبر کے بدلے اللہ تمہارا ساتھ دے گا لیکن تاہم ان کے سرد دِل نہ گرمائے اور ان کی بزدلی دور نہ ہوئی۔