موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کا بہت سارا زمانہ ان میں گزارا۔ اللہ کی آیتیں ان پر واضح کر دیں لیکن ان کا سر نیچا نہ ہوا ان کا تکبر نہ ٹوٹا ان کی بد دماغی میں کوئی فرق نہ آیا۔ تو اب سوا اس کے کے کوئی چیز باقی نہ رہی کہ ان پر عذاب الٰہی آ جائے اور یہ غارت ہوں۔
موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی وحی آئی کہ راتوں رات بنی اسرائیلیوں کو لے کر میرے حکم کے مطابق چل دو۔ بنو اسرائیل نے اس موقع پر قبطیوں سے بہت سے زیور بطور عاریت کے لیے اور چاند چڑھنے کے وقت چپ چاپ چل دئیے۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات چاند گہن تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے راستے میں دریافت فرمایا کہ یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟ بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا نے قبر بتلادی۔ آپ نے تابوت یوسف علیہ السلام اپنے ساتھ اٹھا لیا۔ کہا گیا کہ خود آپ علیہ السلام نے ہی اسے اٹھایا تھا۔ یوسف علیہ السلام کی وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب یہاں سے جانے لگیں تو آپ علیہ السلام کا تابوت اپنے ہمراہ لیتے جائیں۔
ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی خاطر تواضع کی واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی ہم سے مدینے میں بھی مل لینا کچھ دنوں بعد اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ چاہیئے؟ اس نے کہاں ہاں ایک تو اونٹنی دیجئیے مع ہودج کے اور ایک بکری دیئجے جو دودھ دیتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا۔ وہ واقعہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کلیم اللہ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے ہزار کوشش کی لیکن راہ نہیں ملتی۔ آپ علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے پوچھا یہ کیا اندھیر ہے؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے آخری وقت ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم مصر سے چلیں تو آپ علیہ السلام کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں۔ موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ”تم میں سے کون جانتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی تربت کہاں ہے؟“ سب نے انکار کر دیا ہم نہیں جانتے ہم میں سوائے ایک بڑھیا کے اور کوئی بھی آپ علیہ السلام کی قبر سے واقف نہیں آپ علیہ السلام نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اس سے کہلوایا کہ مجھے یوسف علیہ السلام کی قبر دکھا۔ بڑھیا نے کہا ہاں دکھاؤں گی لیکن پہلے اپنے حق لے لوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ”تو کیا چاہتی ہے؟“ اس نے جواب دیا کہ جنت میں آپ علیہ السلام کا ساتھ مجھے میسر ہو۔ آپ علیہ السلام پر اس کا یہ سوال بھاری پڑا اسی وقت وحی آئی کہ ” اس کی بات مان لو اور اس کی شرط منظور کر لو “۔ اب وہ آپ علیہ السلام کو ایک جھیل کے پاس لے گئی جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہو گیا تھا کہا کہ اس کا پانی نکال ڈالو جب پانی نکال ڈالا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا اب یہاں کھودو۔ کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہو گئی اسے ساتھ رکھ لیا اب جو چلنے لگے تو راستہ صاف نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئے ۔ [مسند ابویعلیٰ:2754:موقوف] لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ زیادہ قریب تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یہ لوگ تو اپنے راستے لگ گئے ادھر فرعون اور فرعونیوں کی صبح کے وقت جو آنکھ کھلتی ہے تو چوکیدار غلام وغیرہ کوئی نہیں۔ سخت پیچ وتاب کھانے لگے اور مارے غصے کے سرخ ہو گئے جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو سب کے سب فرار ہو گئے ہیں تو اور بھی سناٹا چھاگیا۔ اسی وقت اپنے لشکر جمع کرنے لگا۔ سب کو جمع کر کے ان سے کہنے لگا۔ کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔