مطلب یہ کہ صراحت کے بغیر نکاح کی چاہت کا اظہار کسی اچھے طریق پر عدت کے اندر کرنے میں گناہ نہیں مثلاً یوں کہنا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں، میں ایسی ایسی عورت کو پسند کرتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرا جوڑا بھی ملا دے، ان شاءاللہ میں تیرے سوا دوسری عورت سے نکاح کا ارادہ نہیں کروں گا، میں کسی نیک دیندار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں، اسی طرح اس عورت سے جسے طلاق بائن مل چکی ہو عدت کے اندر ایسے مبہم الفاظ کہنا بھی جائز ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا جبکہ ان کے خاوند ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں آخری تیسری طلاق دے دی تھی کہ جب تم عدت ختم کرو تو مجھے خبر کر دینا، عدت کا زمانہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں گزارو، جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عدت نکل جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے جن کا مانگا تھا، نکاح کرا دیا، [صحیح مسلم:1480]
ہاں رجعی طلاق کی عدت کے زمانہ میں بجز اس کے خاوند کے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اشارتاً کنایہ بھی اپنی رغبت ظاہر کرے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ یہ فرمان کہ تم اپنے نفس میں چھپاؤ یعنی منگنی کی خواہش، ایک جگہ ارشاد ہے تیرا رب ان کے سینوں میں پوشیدہ کو اور ظاہر باتوں کو جانتا ہے۔ [28-القصص:69] دوسری جگہ تمہارے باطل و ظاہر کا جاننے والا ہوں۔ [60-الممتحنة:1] پس اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا تھا کہ تم اپنے دِلوں میں ضرور ذِکر کرو گے اس واسطے اس نے تنگی ہٹا دی، لیکن ان عورتوں سے پوشیدہ وعدے نہ کرو، یعنی زناکاری سے بچو، ان سے یوں نہ کہو کہ میں تم پر عاشق ہوں، تم بھی وعدہ کرو کہ میرے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرو گی وغیرہ۔
عدت میں ایسے الفاظ کا کہنا حلال نہیں، نہ یہ جائز ہے کہ پوشیدہ طور پر عدت میں نکاح کر لے اور عدت گزر جانے کے بعد اس نکاح کا اظہار کرے، پس یہ سب اقوال اس آیت کے عموم میں آ سکتے ہیں اسی لیے فرمان ہوا کہ مگر یہ کہ تم ان سے اچھی بات کرو مثلاً ولی سے کہہ دیا کہ جلدی نہ کرنا، عدت گزر جانے کی مجھے بھی خبر کرنا وغیرہ۔ جب تک عدت ختم نہ ہو جائے تب تک نکاح منعقد نہ کیا کرو۔
علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں۔ اگر کسی نے کر لیا اور دخول بھی ہو گیا تو بھی ان میں جدائی کرا دی جائے گی، اب آیا یہ عورت اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو جائے گی یا پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کر سکتا ہے؟ اس میں اختلاف ہے جمہور تو کہتے ہیں کہ کر سکتا ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ہیمشہ کیلئے حرام ہو گئی، اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عورت کا نکاح عدت کے اندر کر دیا جائے گا اگر اس کا خاوند اس سے نہیں ملا تو ان دونوں میں جدائی کرا دی جائے گی اور جب اس کے پہلے خاوند کی عدت گزر جائے تو یہ شخص منجملہ اور لوگوں کو اس کے نکاح کا پیغام ڈال سکتا ہے اور اگر دونوں میں ملاپ بھی ہو گیا ہے جب بھی جدائی کرا دی جائے گی اور پہلے خاوند کو عدت گزار کر پھر اس دوسرے خاوند کی عدت گزارے گی اور پھر یہ شخص اس سے ہرگز نکاح نہیں کر سکتا، اس فیصلہ کا ماخذ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اس شخص نے جلدی کر کے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت کا لحاظ نہ کیا تو اسے اس کی خلاف سزا دی گئی کہ وہ عورت اس پر ہمیشہ کیلئے حرام کر دی گئی، جیسا کہ قاتل اپنے مقتول کے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ امام شافعی نے امام مالک رحمہ اللہ علیہما سے بھی یہ اثر روایت کیا ہے،
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلا قول تو امام صاحب کا یہی تھا لیکن جدید قول آپ کا یہ ہے کہ اسے بھی نکاح کرنا حلال ہے کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا یہی فتویٰ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما والا یہ اثر سنداً منقطع ہے بلکہ مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے اس بات سے رجوع کر لیا ہے اور فرمایا ہے کہ مہر ادا کر دے اور عدت کے بعد یہ دونوں آپس میں اگر چاہیں تو نکاح کر سکتے ہیں۔
پھر فرمایا جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دِلوں کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، اس کا لحاظ اور خوف رکھو اپنے دِل میں عورتوں کے متعلق فرمان باری کیخلاف خیال بھی نہ آنے دو۔ ہمیشہ دِل کو صاف رکھو، برے خیالات سے اسے پاک رکھو۔ ڈر، خوف کے حکم کے ساتھ ہی اپنی رحمت کی طمع اور لالچ بھی دلائی اور فرمایا کہ الہٰ العالمین خطاؤں کو بخشنے والا اور حلم و کرم والا ہے۔