سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت، جنت و دوزخ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:39/1] قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لیے اسے آخرت کہتے ہیں۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ۔ مجاہد، ابوالعالیہ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے۔
بعض نے کہا ہے یہ دونوں ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں «واؤ» عطف کو ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» * «الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ» * «وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ» * «وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَىٰ» * «فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَىٰ»[87-الأعلى:1-5] میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت «وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ»[2-البقرة:4] سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں۔ سدی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں: «وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّـهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا»[3-آل عمران:199] الخ یعنی ”اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں“۔
اور جگہ ارشاد ہے: «الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ» * «وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ» * «أُولَـٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ»[28-القصص:52-54] یعنی ”جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا یہ نیکی سے بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں“۔
بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر بھی ایمان رکھیں۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے ۔ [صحیح بخاری:97]
امام جریر رحمہ اللہ کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ عربی مومن اور کتابی مومن۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ البقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں۔ عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا۔
غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں۔
اسی لیے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ»[4-النساء:136] الخ یعنی ”ایمان والو اللہ پر، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ“۔
اور فرمایا: «وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـٰهُنَا وَإِلَـٰهُكُمْ وَاحِدٌ»[29-العنكبوت:46] الخ یعنی ”اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے“۔
ارشاد ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ»[4-النساء:47] یعنی ”اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے“۔
اور فرمایا: «قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ»[5-المائدة:68] الخ یعنی ”اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے قائم نہ رکھو“۔
دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا: «آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ»[2-البقرة:285] الخ یعنی ”ہمارے رسول ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے“۔
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: «وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ»[4-النساء:152] الخ یعنی ”جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے“۔
اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ اس لیے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے۔
جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ [صحیح بخاری:4485]
بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا، زیادہ کمال والا، زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»