تفسير ابن كثير



خاوند کے انتقال کے بعد ٭٭

اس آیت میں حکم ہو رہا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے انتقال کے بعد چار مہینے دس دن عدت گزاریں خواہ اس سے مجامعت ہو یا نہ ہوئی ہو، اس پر اجماع ہے دلیل اس کی ایک تو اس آیت کا عموم دوسرے یہ حدیث جو مسند احمد اور سنن میں ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ صحیح کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اس سے مجامعت نہیں کی تھی نہ مہر مقرر ہوا تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا، فرمائیے اس کی نسبت کیا فتویٰ ہے جب کئی مرتبہ وہ آئے گئے تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں، اگر ٹھیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانو اور اگر خطاء ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں۔ میرا فتویٰ یہ ہے کہ اس عورت کو پورا مہر ملے گا جو اس کے خاندان کا دستور ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو اور اس عورت کو پوری عدت گزارنی چاہیئے اور اسے ورثہ بھی ملے گا۔ یہ سن کر معقل بن یسار اشجعی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ [سنن ابوداود:2114، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

بعض روایات میں ہے کہ اشجع کے بہت سے لوگوں نے یہ روایت بیان کی، ہاں جو عورت اپنے خاوند کی وفات کے وقت حمل سے ہو اس کیلئے یہ عدت نہیں، اس کی عدت وضع حمل ہے۔ گو، انتقال کی ایک ساعت کے بعد ہی ہو جائے۔ قرآن میں ہے آیت «وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ» [ 65۔ الطلاق: 1 ] ‏‏‏‏ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے۔ ہاں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ وضع حمل اور چار مہینے دس دن میں جو دیر کی عدت ہو وہ حاملہ کی عدت ہے، یہ قول تو بہت اچھا ہے اور دونوں آیتوں میں اس سے تطبیق بھی عمدہ طور پر ہو جاتی ہے لیکن اس کیخلاف بخاری و مسلم کی ایک صاف اور صریح حدیث موجود ہے جس میں ہے کہ سبیعہ اسلیمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہوا، اس وقت آپ حمل سے تھیں اور چند راتیں گزار پائی تھیں تو بچہ تولد ہوا، جب نہا دھو چکیں تو لباس وغیرہ اچھا پہن لیا، ابوالسنابل بن بعلبک رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا کیا تم نکاح کرنا چاہتی ہو؟ اللہ کی قسم جب تک چار مہینے دس دن نہ گزر جائیں تم نکاح نہیں کر سکتیں۔ سیبعہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر خاموش ہو گئیں اور شام کو خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اور مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بچہ ہو گیا اسی وقت تم عدت سے نکل گئیں، اب اگر تم چاہو تو بیشک نکاح کر سکتی ہو۔ [صحیح بخاری:3991] ‏‏‏‏

یہ بھی مروی ہے کہ جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما کو اس حدیث کا علم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے قول سے رجوع کر لیا، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما کے ساتھی شاگرد بھی اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اسی طرح لونڈی کی عدت بھی اتنی نہیں، اس کی عدت اس سے آدھی ہے یعنی دو مہینے اور پانچ راتیں، جمہور کا مذہب یہی ہے جس طرح لونڈی کی حد بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی ہے اسی طرح عدت بھی۔ محمد بن سیرین اور بعض علماء ظاہر یہ لونڈی کی اور آزاد عورت کی عدت میں برابری کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل ایک تو اس آیت کا عموم ہے، دوسرے یہ کہ عدت ایک جلی امر ہے جس میں تمام عورتیں یکساں ہیں۔ سعید ابن مسیب، ابوالعالیہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں اس عدت میں حکمت یہ ہے کہ اگر عورت کو حمل ہو گا تو اس مدت میں بالکل ظاہر ہو جائے گا۔

سیدنا ابن مسعود کی بخاری و مسلم والی مرفوع حدیث میں ہے کہ انسان کی پیدائش کا یہ حال ہے کہ چالیس دن تک تو رحمِ مادر میں نطفہ کی شکل میں ہوتا ہے، پھر خون بستہ کی شکل چالیس دن تک رہتی ہے پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے۔ [صحیح بخاری:3208] ‏‏‏‏ تو یہ ایک سو بیس دن ہوئے جس کے چار مہینے ہوئے، دس دن احتیاطاً اور رکھ دے کیونکہ بعض مہینے انتیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور جب روح پھونک دی گئی تو اب بچہ کی حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور حمل بالکل ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس لیے اتنی عدت مقرر کی گئی «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں دس دن اس لیے ہیں کہ روح انہی دس دِنوں میں پھونکی جاتی ہے۔ ربیع بن انس رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یہ بھی مروی ہے تاکہ جس لونڈی سے بچہ ہو جائے اس کی عدت بھی آزاد عورت کے برابر ہے اس لیے کہ وہ فراش بن گئی اور اس لیے بھی کہ مسند احمد رحمہ اللہ میں حدیث ہے۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا لوگو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر خلط ملط نہ کرو۔ اولاد والی لونڈی کی عدت جبکہ اس کا سردار فوت ہو جائے چار مہینے اور دس دن ہیں۔ [سنن ابوداود:2308، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ یہ حدیث ایک اور طریق سے بھی ابوداؤد میں مروی ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ایک راوی قبیصیہ نے اپنے استاد عمر سے یہ روایت نہیں سنی۔ سعید بن مسیب مجاہد، سعید بن جبیر، حسن بن سیرین، ابن عیاض زہری اور عمرو بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے۔ یزید بن عبدالملک بن مروان جو امیر المؤمنین تھے، یہی حکم دیتے تھے۔

اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم بھی ایک روایت میں یہی فرماتے ہیں لیکن طاؤس اور قتادہ رحمہ اللہ اس کی عدت بھی آدھی بتلاتے ہیں یعنی دو ماہ پانچ راتیں۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے ساتھ حسن بن صالح بن حی فرماتے ہیں تین حیض عدت گزارے، سیدنا علی ابن مسعود، رضی اللہ عنہما عطاء اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے۔

امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم کی مشہور روایت یہ ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہی ہے۔ سیدنا ابن عمر، شعبی، مکحول، لیث، ابوعبید، ابوثور رحمہ اللہ علیہم اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔ لیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر حیض کی حالت میں اس کا سید فوت ہوا ہے تو اسی حیض کا ختم ہو جانا اس کی عدت کا ختم ہو جانا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے عدت گزارے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور فرماتے ہیں ایک مہینہ اور تین دن مجھے زیادہ پسند ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» [ مترجم کے نزدیک قوی قول پہلا ہے یعنی مثل آزاد عورت کے پوری عدت گزارے] ‏‏‏‏۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

بعد ازاں جو ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوگ واجب ہے۔ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ جو عورت اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو اسے تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگواری کرنا حرام ہے، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن سوگوار ہے۔ ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری بیٹی کا میاں مر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دُکھ رہی ہیں، کیا میں اس کے سرمہ لگا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، دو تین مرتبہ اس نے اپنا سوال دہرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا، آخری بار فرمایا یہ تو چار مہینے اور دس دن ہی ہیں، جاہلیت میں تو تم سال سال بھر بیٹھی رہا کرتی تھیں۔ [ایضاً] ‏‏‏‏

سیدہ زینب بنت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے جب کسی عورت کا خاوند مر جاتا تھا تو اسے کسی جھونپڑے میں ڈال دیتے تھے، وہ بدترین کپڑے پہنتی، خوشبو وغیرہ سے الگ رہتی اور سال بھر تک ایسی ہی سڑی بھسی رہتی تھی، سال بھر کے بعد نکلتی اور اونٹنی کی مینگنی لے کر پھینکتی اور کسی جانور مثلاً گدھا یا بکری یا پرندے کے جسم کے ساتھ اپنے جسم کو رگڑتی، بسا اوقات وہ مر ہی جاتا، [صحیح بخاری:5336] ‏‏‏‏ یہ تھی جاہلیت کی رسم۔ پس یہ آیت اس کے بعد کی آیت کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ ایسی عورتیں سال بھر تک رکی رہیں۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ یہی فرماتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے اور تفصیل اس کی عنقریب آئے گی ان شاءاللہ، مطلب یہ کہ اس زمانہ میں بیوہ عورت کو زینت اور خوشبو اور بہت بھڑکیلے کپڑے اور زیور وغیرہ پہننا منع ہے اور یہ سوگواری واجب ہے۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ طلاق رجعی کی عدت میں یہ واجب نہیں، اور جب طلاق بائن ہو تو وجوب اور عدم وجوب کے دونوں قول ہیں، فوت شدہ خاوندوں کی زندہ بیویوں پر تو سب پر یہ سوگواری واجب ہے، خواہ وہ نابالغہ ہوں خواہ وہ عورتیں ہوں جو حیض وغیرہ سے اتر چکی ہوں، خواہ آزاد عورتیں ہوں خواہ لونڈیاں ہوں، خواہ مسلمان ہوں خواہ کافرہ ہوں کیونکہ آیت میں عام الحکم ہے، ہاں ثوری اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کافرہ عورت کی سوگواری کے قائل نہیں، شہاب اور ابن نافع رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حکم تعبدی ہے، امام ابوحنیفہ اور ثوری رحمہ اللہ کمسن نابالغہ عورت کیلئے بھی یہی فرماتے ہیں کیونکہ وہ غیر مکلفہ ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب مسلمان لونڈی کو اس میں ملاتے ہیں لیکن اس مسائل کی تصفیہ کا یہ موقع نہیں واللہ الموفق بالصواب پھر فرمایا جب ان کی عدت گزر چکے تو ان کے اولیاء پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ عورتیں اپنے بناؤ سنگھار کریں یا نکاح کریں، یہ سب ان کیلئے حلال طیب ہے۔ حسن، زہری اور سدی رحمہ اللہ علیہم سے بھی اسی طرح مروی ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.