تفسير ابن كثير



مشرکین کی حماقتیں ٭٭

اس حماقت کو ملاحظہ فرمائیے کہ رسول کی رسالت کے انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے؟ اور بازاروں میں تجارت اور لین دین کے لیے آتا جاتا کیوں ہے؟ اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ کہ وہ اس کے دعوے کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلاتا اور عذاب الٰہی سے آگاہ کرتا۔

فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ «فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلٰىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ» [43-الزخرف:53] ‏‏‏‏ الخ، ” اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے؟ یا اس کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے۔ “ چونکہ دل ان تمام کافروں کے یکساں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کفار نے بھی کہا کہ اچھا یہ نہیں تو اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا کہ یہ خود باآرام اپنی زندگی بسر کرتا اور دوسرں کو بھی دیتا یا اس کے ساتھ کوئی چلتا پھرتا باغ ہوتا کہ یہ اپنے کھانے پینے سے تو بےفکر ہو جاتا۔ بےشک یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے لیکن سردست ان سب چیزوں کے نہ دینے میں بھی حکمت ہے۔

یہ ظالم مسلمانوں کو بھی بہکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کے پیچھے لگ گئے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔

دیکھو تو سہی کہ کیسی بےبنیاد باتیں بناتے ہیں، کسی ایک بات پر جم ہی نہیں سکتے، ادھر ادھر کروٹیں لے رہے ہیں۔ کبھی جادوگر کہہ دیا تو کبھی جادو کیا ہوا بتا دیا، کبھی شاعر کہہ دیا، کبھی جن کا سکھایا ہوا کہہ دیا، کبھی کذاب کہا، کبھی مجنون۔ حالانکہ یہ سب باتیں محض غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا اس سے بھی واضح ہے کہ خود ان میں تضاد ہے۔ کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کا اعتماد نہیں۔ گھڑتے ہیں پھر چھوڑتے ہیں پھر گھڑتے ہیں پھر بدلتے ہیں، کسی ٹھیک بات پر جمتے ہی نہیں۔ جدھر متوجہ ہوتے ہیں راہ بھولتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں۔

حق تو ایک ہوتا ہے، اس میں تضاد اور تعارض نہیں ہوسکتا۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ ان بھول بھلیوں سے نکل سکیں۔ بےشک اگر رب چاہے تو جو یہ کافر کہتے ہیں، اس سے بہت بہتر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہی دے دے۔ وہ بڑی برکتوں والا ہے۔

پتھر سے بنے ہوئے گھر کو عرب قصر کہتے ہیں خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو جناب باری تعالیٰ کی جانب سے فرمایا گیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو زمین کے خزانے اور یہاں کی کنجیاں آپ کو دے دی جائیں اور اس قدر دنیا کا مالک بنا کر دیا جائے کہ کسی اور کو اتنی ملی نہ ہو۔ ساتھ ہی آخرت کی آپ کی تمام نعمتیں جوں کی توں برقرار ہیں لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور جواب دیا کہ نہیں میرے لیے تو سب کچھ آخرت میں ہی جمع ہو۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:26286:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں یہ صرف تکبر، عناد، ضد اور ہٹ دھرمی کے طور پر کہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کا کہا ہوا ہو جائے تو یہ مسلمان ہو جائیں گے۔ اس وقت پھر اور کچھ حیلہ بہانہ ٹٹول نکالیں گے۔ ان کے دل میں تو یہ خیال جما ہوا ہے کہ قیامت ہونے کی نہیں۔

اور ایسے لوگوں کے لیے ہم نے بھی عذاب الیم تیار کر رکھا ہے جو ان کے دل کی برداشت سے باہر ہے جو بھڑکانے اور سلگانے والی، جھلس دینے والی تیز آگ کا ہے۔ ابھی تو جہنم ان سے سو سال کے فاصلے پر ہو گی، جب ان کی نظریں اس پر اور اس کی نگاہیں ان پر پڑیں گی، وہیں جہنم پیچ و تاب کھائے گی اور جوش و خروش سے آوازیں نکالے گا۔ جسے یہ بدنصیب سن لیں گے اور ان کے ہوش و حواس خطا ہو جائیں گے، ہوش جاتے رہیں گے، ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔

جہنم ان بدکاروں پر دانت پیس رہی ہو گی اور غصے کے مارے بل کھا رہی ہو گی اور شور مچا رہی ہو گی کہ کب ان کفار کا نوالہ بناؤں؟ اور کب ان ظالموں سے انتقام لوں؟ سورۃ تبارک میں ہے: ” جب یہ لوگ اس میں ڈالے جائیں گے تو دور ہی سے اس کی خوفناک آوازیں سنیں گے اور وہ ایسی بھڑک رہی ہو گے کہ ابھی ابھی مارے جوش کے پھٹ پڑے۔ “ [67-الملك:7-8] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص میرا نام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو اور جو شخص اپنے ماں باپ کے سوا دوسروں کو اپنا ماں باپ کہے اور جو غلام اپنے آقا کے سوا اور کی طرف اپنی غلامی کی نسبت کرے، وہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اپنا ٹھکانا بنا لے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی «اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍ بَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيْرًا» الخ “ [تفسیر ابن جریر الطبری:26287:ضعیف] ‏‏‏‏

ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ربیع وغیرہ کو ساتھ لیے ہوئے کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں لوہار کی دکان آئی، آپ وہاں ٹھہر گئے اور لوہا جو آگ میں تپایا جا رہا تھا اسے دیکھنے لگے۔ ربیع رحمہ اللہ کا تو برا حال ہو گیا۔ عذاب الٰہی کا نقشہ آنکھوں تلے پھر گیا۔ قریب تھا کہ بےہوش ہو کر گر پڑیں۔ اس کے بعد آپ فرات کے کنارے گئے، وہاں آپ نے تنور کو دیکھا کہ اس کے بیچ میں آگ شعلے مار رہی ہے۔ بےساختہ آپ کی زبان سے یہ آیت نکل گئی، اسے سنتے ہی ربیع رحمہ اللہ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ چارپائی پر ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا گیا، صبح سے لے کر دوپہر تک سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس بیٹھے رہے اور چارہ جوئی کرتے رہے لیکن ربیع کو ہوش نہ آیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب جہنمی کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا، جہنم چیخے گی اور ایک ایسی جھرجھری لے گی، کل اہل محشر خوف زدہ ہو جائیں گے۔ اور راویت میں ہے کہ بعض لوگوں کو جب دوزخ کی طرف لے چلیں گے دوزخ سمٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مالک و رحمن اس سے پوچھے گا: یہ کیا بات ہے؟ وہ جواب دے گی کہ اے اللہ! یہ تو اپنی دعاؤں میں تجھ سے جہنم سے پناہ مانگا کرتا تھا، آج بھی پناہ مانگ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو رحم آ جائے گا، حکم ہو گا اسے چھوڑ دو۔ کچھ اور لوگوں کو لے چلیں گے۔ وہ کہیں گے: پروردگار! ہمارا گمان تو تیری نسبت یہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: پھر تم کیا سمجھ رہے تھے؟ یہ کہیں گے: یہی کہ تیری رحمت ہمیں چھپا لے گی، تیرا کرم ہمارے شامل حال ہو گا، تیری وسیع رحمت ہمیں اپنے دامن میں لے لے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی آرزو بھی پوری کرے گا اور حکم دے گا کہ میرے ان بندوں کو بھی چھوڑ دو۔ کچھ اور لوگ گھسٹتے ہوئے آئیں گے، انہیں دیکھتے ہی جہنم ان کی طرف شور مچاتی ہوئی بڑھے گی اور اس طرح جھرجھری لے گی کہ تمام مجمع محشر خوف زدہ ہو جائے گا۔

سیدنا عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جہنم مارے غصے کے تھرتھرائے گی اور شور و غل اور چیخ و پکار اور جوش و خروش شروع کرے گی، اس وقت تمام مقرب فرشتے اور ذی رتبہ انبیاء علیہم السلام کانپنے لگیں گے یہاں تک خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور کہنے لگیں گے: اے اللہ! میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کا بچاؤ چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا۔ یہ لوگ جہنم کے ایسے تنگ و تاریک مکان میں ٹھوس دیئے جائیں گے جیسے بھالا کسی سوراخ میں۔

اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہونا اور آپ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ جیسے کیل دیوار میں بمشکل گاڑی جاتی ہے، اس طرح ان دوزخیوں کو ٹھونسا جائے گا۔ [الدر المنشور للسیوطی:117/5:ضعیف] ‏‏‏‏

یہ اس وقت خوب جکڑے ہوئے ہوں گے، بال بال بندھا ہوا ہو گا۔ وہاں وہ موت کو، فوت کو، ہلاکت کو، حسرت کو پکارنے لگیں گے۔ ان سے کہا جائے گا: ایک موت کو کیوں پکارتے ہو؟ صدہا ہزارہا موتوں کو کیوں نہیں پکارتے؟

مسند احمد میں ہے: سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا، یہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گھسیٹتا ہوا اپنی ذریت کو پیچھے لگائے ہوئے موت و ہلاکت کو پکارتا ہوا دوڑتا پھرے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اولاد بھی سب۔ حسرت و افسوس، موت و غارت کو پکار رہی ہو گی۔ اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا۔ [مسند احمد:152/3:ضعیف] ‏‏‏‏

«ثبور» سے مراد موت، ہلاکت، ویل، حسرت، خسارہ، بربادی وغیرہ ہے۔ جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا: «وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا» [17-الإسراء:102] ‏‏‏‏ ” فرعون! میں تو سمجھتا ہوں کہ تو مٹ کر برباد ہو کر ہی رہے گا۔ “ شاعر بھی لفظ «ثبور» کو ہلاکت و بربادی کے معنی میں لائے ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.