تفسير ابن كثير



عروج اسلام لازم ہے ٭٭

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما رہا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا، لوگوں کا سردار بنا دے گا، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن و اطمینان ہوں گے، حکومت ان کی ہو گی، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی “۔

الحمدللہ یہی ہوا بھی، مکہ، خیبر، بحرین، جزیرہ عرب اور یمن تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فتح ہوگیا۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کرلی، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا۔

حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمہ اللہ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا۔ اس نے بھی سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے۔ پھر جب کہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سنبھالی، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے۔

سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا، انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی سرداری میں روانہ فرمایا۔ بصریٰ، دمشق، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الٰہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے۔

سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی علیہ السلام کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی قوت، طبیعت، آپ رضی اللہ عنہ کی نیکی، سیرت، آپ رضی اللہ عنہ کے عدل کا کمال، آپ رضی اللہ عنہ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ رضی اللہ عنہ کے بعد تلاش کرنا محض بے سود اور بالکل لا حاصل ہے۔ تمام ملک شام، پورا علاقہ مصر، اکثر حصہ فارس آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا۔ سلطنت کسریٰ کے ٹکڑے اڑگئے، خود کسریٰ کو منہ چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ ملی۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا۔ قیصر کو فنا کر دیا۔ مٹا دیا۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا۔ قسطنطنیہ میں جا کر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بے شمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوائے تھے۔ «صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ» ۔

پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق و مغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصیٰ مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں۔ اندلس، قبرص، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح ہوئے۔ کسریٰ قتل کر دیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی۔

دوسری جانب مدائن، عراق، خراسان، اھواز سب فتح ہو گئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی رضی اللہ عنہ میں پہنچوائے۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کو قرآن سے کچھ ایسا شغف تھا جو بیان سے باہر ہے۔ قرآن کے جمع کرنے، اس کے حفظ کرنے، اس کی اشاعت کرنے، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمیتں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقیناً عدیم المثال ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق و مغرب دیکھ لی عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے ۔ [صحیح مسلم:2889] ‏‏‏‏

(‏‏‏‏مسلمانو! رب کے اس وعدے کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بے دینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا، لیٹا رہے۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنا لے آمین آمین)۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہا سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے یہ سب کے سب قریشی ہوں گے ۔ [صحیح بخاری:7222] ‏‏‏‏

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو رجم کیا گیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت وسلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے۔ سب کے سب قریشی ہوں گے، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونایقینی ہے خواہ پے در پے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں۔

چنانچہ چاروں خلیفہ تو بالترتیب ہوئے اول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے۔

ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جن کی کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھرگئی ہوگی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہو جائے گا ۔ [سنن ابوداود:4646، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابوالعالیہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم بیس سال تک مکے میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا، ڈر خوف کا اور بے اطمینانی کا تھا، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا۔ مسلمان بے حد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ اہل اسلام بہت خائف تھے۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ رضی اللہ عنہم ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے سکون سے فرمایا: کچھ دن اور صبر کر لو پھر تو اس قدر امن و اطمینان ہو جائے گا کہ پوری مجلس میں، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا ۔

اسی وقت یہ آیت اتری۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہو گئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے۔ پھر یہی امن و راحت کا دور دورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے تک۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:26179:مرسل] ‏‏‏‏

بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے۔ جیسے فرمان ہے آیت «اذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ» [8-الأنفال:26] ‏‏‏‏، یعنی ” یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بے حد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا “۔

پھر فرمایا کہ ” جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کر دیا تھا “ جیسے کہ کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا «عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ» [7-الأعراف:129] ‏‏‏‏، ” بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے “۔

اور آیت میں ہے «وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ» [28-القصص:5-6] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے “۔

پھر فرمایا کہ ” ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت و طاقت دے گا “۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب بطور وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تو نے حیرہ دیکھا ہے اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہو جائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہا نکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا۔ یقین مان کہ کسریٰ بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اسی کسری بن ھرمز کے۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا ۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسریٰ کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقیناً پوری ہو کر رہے گی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ [صحیح بخاری:3595] ‏‏‏‏

مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اس امت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا ۔ [مسند احمد:134/5:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ ” وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے “۔

مسند میں ہے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے «لبیک و سعدیک» کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے؟ میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پورا علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے
۔ [صحیح بخاری:5967] ‏‏‏‏

پھر فرمایا ” اس کے بعد جو منکر ہو جائے وہ یقیناً فاسق ہے “۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے۔ شان الٰہی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی۔

بخاری و مسلم میں ہے میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسر حق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑسکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گی ۔ [صحیح بخاری:7459] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے یہاں تک اللہ کا وعدہ آ جائے گا ۔ [صحیح مسلم:1923] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی ۔ [مسند بزار:3387:ضعیف] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے ۔ [مسند ابو یعلی:2078:ضعیف وله شواهد] ‏‏‏‏ یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.