اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں۔ ایک یہ کہ نہیں، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہو گئی ہے، سیدنا ابن عباس ابن زبیر رضی اللہ عنہما عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابوثور رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے۔ دوسرا قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دیدے تو واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں، یہ مثل اس کے ہے جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے اصحاب، ثوری، اوزاعی، سعید بن مسیب، شریح، طاؤس، ابراہیم، زہری، حاکم، حکم اور حماد رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے۔ سیدنا ابن مسعود اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو، فرائض کو ضائع نہ کرو، محارم کی بے حرمتی نہ کرو، جن چیزوں کا ذِکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے۔ [حاکم:115/4:ضعیف و منقطع]
اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت «الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ»[ البقرہ: 229 ] کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی، ان سے تجاوز نہ کرو، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کروں، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ [سنن نسائی:3430، قال الشيخ الألباني:صحیح]