جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں، اس لیے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفی، ماہان حنفی، سعید اور زہری رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضا مندی کے بھی رجوع کر سکتا ہے۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے، داؤد ظاہری رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کر سکتے ہیں۔ ابو عمر بن عبدالبر فرقہ سے یہ قول بھی روایت کرتے ہیں کہ اگر دونوں رضا مند ہوں تو نیا نکاح عدت کے ابدر اندر کر سکتے ہیں، ابعمر بن عبدالبر فرقہ سے یہ قول بھی روایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کر سکتا، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے۔