سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: فرائض نماز بجا لانا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:241/1] رکوع سجدہ، تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع، سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:37/1]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ»[2-البقرة:3] کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:243/1]
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے، خرچ میں قربانی دینا جو قرب الہٰی حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برأت میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:243/1]
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ کو اہل و عیال میں خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لیے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہٰذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا۔
میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لیے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء، اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہٰذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔
صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا۔ نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا [صحیح بخاری:8] ، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔
عربی لغت میں «صلوٰۃ» کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعر اس پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لیے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ نماز کو «صلوٰۃ» اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں «صلوین» کہتے ہیں چونکہ نماز میں یہ ہلتی ہیں اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے «صلی» سے، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا۔
جیسے قرآن میں آیت «لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى»[92-الليل:15] الخ یعنی ”جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت“۔
بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لیے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب «تصلیہ» کہتے ہیں چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہتے ہیں۔
جیسے قرآن میں ہے: «إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ»[29-العنكبوت:45] الخ یعنی ”نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے“ لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» لفظ زکوٰۃ کی بحث «ان شاءاللہ تعالیٰ» اور جگہ آئے گی۔