اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی اور صلہ رحمی کے چھوڑنے کا ذریعہ اللہ کی قسموں کو نہ بناؤ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ»[ 24۔ النور: 22 ] ، یعنی وہ لوگ جو کشادہ حال اور فارغ البال ہیں وہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے پر قسمیں نہ کھا بیٹھیں، انہیں چاہیئے کہ معاف کرنے اور درگزر کرنے کی عادت ڈالیں، کیا تمہاری خود خواہش نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے، اگر کوئی ایسی قسم کھا بیٹھے تو اسے چاہیئے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کر دے، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ ہم پیچھے آنے والے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے بڑھنے والے ہیں، [صحیح بخاری:`6624] فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ایسی قسم کھا لے اور کفارہ ادا نہ کرے اور اس پر اَڑا رہے وہ بڑا گنہگار ہے، یہ حدیث اور بھی بہت سی سندوں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں۔ مسروق رحمہ اللہ وغیرہ بہت سے مفسرین سے بھی یہی مروی ہے، جمہور کے ان اقوال کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ان شاءاللہ میں اگر کوئی قسم کھا بیٹھوں گا اور اس کے توڑنے میں مجھے بھلائی نظر آئے گی تو میں قطعاً اسے توڑ دوں گا اور اس قسم کا کفارہ ادا کروں گا، [صحیح بخاری:6623]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے عبدالرحمٰن سرداری امارت اور امامت کو طلب نہ کر اگر بغیر مانگے تو دیا جائے گا تو اللہ کی جانب سے تیری مدد کی جائے گی اور اگر تو نے آپ مانگ کر لی ہے تو تجھے اس کی طرف سونپ دیا جائے گا تو اگر کوئی قسم کھا لے اور اس کے خلاف بھی بھلائی دیکھ لے تو اپنی قسم کا کفارہ دیدے اور اس نیک کام کو کر لے۔ [صحیح بخاری:6722] پھر فرماتا ہے جو قسمیں تمہارے منہ سے بغیر قصداً اور ارادے کے عادتاً نکل جائیں ان پر پکڑ نہیں۔
صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جو شخص کوئی قسم کھا لے پھر اس کے سوا خوبی نظر آئے تو اسے چاہیئے کہ اس خوبی والے کام کو کر لے اور اپنی اس قسم کو توڑ دے اس کا کفارہ دیدے، [صحیح مسلم:1650] مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اس کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔ [مسند احمد:211/2:صحیح بالشواھد] ابوداؤد میں ہے نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہی ہے نہ رشتوں ناتوں کو توڑتی ہے جو شخص کوئی قسم کھا لے اور نیکی اس کے کرنے میں ہو تو وہ قسم کو چھوڑ دے اور نیکی کا کام کرے، اس قسم کو چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کل کی کل صحیح احادیث میں یہ لفظ ہیں کہ اپنی ایسی قسم کا کفارہ دے، [سنن ابوداود:3274، قال الشيخ الألباني:حسن]
ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ ایسی قسم کا پورا کرنا یہی ہے کہ اسے توڑ دے اور اس سے رجوع کرے، [تفسیر ابن جریر الطبری:4456:ضعیف] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سعید بن مسیب مسروق اور شعبی رحمہ اللہ علیہم بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کے ذمہ کفارہ نہیں۔
مسلم بخاری کی حدیث میں ہے جو شخص لات اور عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے وہ آیت «لا الہ الا اللہ» پڑھ لے۔ [صحیح بخاری:4860] یہ ارشاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں کو ہوا تھا جو ابھی ابھی اسلام لائے تھے اور جاہلیت کے زمانہ کی یہ قسمیں ان کی زبانوں پر چڑھی ہوئی تھیں تو ان سے فرمایا کہ اگر عادتاً کبھی ایسے شرکیہ الفاظ نکل جائیں تو فوراً کلمہ توحید پڑھ لیا کرو تاکہ بدلہ ہو جائے۔ پھر فرمایا ہاں جو قسمیں پختگی کے ساتھ دِل کی ارادت کے ساتھ قصداً کھائی جائیں ان پر پکڑ ہے۔ دوسری آیت کے لفظ «بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ»[ 5-المائدہ: 89 ] ہیں، ابوداؤد میں بروایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مرفوع حدیث مروی ہے جو اور روایتوں میں موقوف وارد ہوئی ہے کہ یہ لغو قسمیں وہ ہیں جو انسان اپنے گھربار میں بال بچوں میں کہہ دیا کرتا ہے کہ ہاں اللہ کی قسم اور نہیں اللہ کی قسم، [سنن ابوداود:3254، قال الشيخ الألباني:صحیح] غرض بطور تکیہ کلام کے یہ لفظ نکل جاتے ہیں دِل میں اس کی پختگی کا خیال بھی نہیں ہوتا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ دو قسمیں ہیں جو ہنسی ہنسی میں انسان کے منہ سے نکل جاتی ہیں، ان پر کفارہ نہیں، ہاں جو ارادے کے ساتھ قسم ہو پھر اس کا خلاف کرے تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا، آپ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور بھی بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم نے یہی تفسیر اس آیت کی بیان کی ہے، [تفسیر ابن ابی حاتم:715/2]
یہ بھی مروی ہے کہ ایک آدمی اپنی تحقیق پر بھروسہ کر کے کسی معاملہ کی نسبت قسم کھا بیٹھے اور حقیقت میں وہ معاملہ یوں نہ ہو تو یہ قسمیں لغو ہیں، یہ معنی بھی دیگر بہت سے حضرات سے مروی ہیں۔
ایک حسن حدیث میں ہے جو مرسل ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیر اندازوں کی ایک جماعت کے پاس جا کھڑے ہوئے، وہ تیر اندازی کر رہے تھے اور ایک شخص کبھی کہتا اللہ کی قسم اس کا تیر نشانے پر لگے گا، کبھی کہتا اللہ کی قسم یہ خطا کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نے کہا دیکھیے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس کی قسم کے خلاف ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دو قسمیں لغو ہیں ان پر کفارہ نہیں اور نہ کوئی سزا یا عذاب ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:4461:ضعیف و مرسل] بعض بزرگوں نے فرمایا ہے یہ وہ قسمیں ہیں جو انسان کھا لیتا ہے پھر خیال نہیں رہتا، یا کوئی شخص اپنے کسی کام کے نہ کرنے پر کوئی بد دعا کے کلمات اپنی زبان سے نکال دیتا ہے، وہ بھی لغو میں داخل ہیں یا غصے اور غضب کی حالت میں بےساختہ زبان سے قسم نکل جائے یا حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر لے تو اسے چاہیئے کہ ان قسموں کی پروا نہ کرے اور اللہ کے احکام کیخلاف نہ کرے،
حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انصار کے دو شخص جو آپس میں بھائی بھائی تھے ان کے درمیان کچھ میراث کا مال تھا تو ایک نے دوسرے سے کہا اب اس مال کو تقسیم کر دو، دوسرے نے کہا اگر اب تو نے تقسیم کرنے کیلئے کہا تو میرا مال کعبہ کا خزانہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے یہ واقع سن کر فرمایا کہ کعبہ ایسے مال سے غنی ہے، اپنی قسم کا کفارہ دے اور اپنے بھائی سے بول چال رکھ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی رشتے ناتوں کے توڑنے اور جس چیز کی ملکیت نہ ہو ان کے بارے میں قسم اور نذر نہیں۔ [سنن ابوداود:3272، قال الشيخ الألباني:ضعیف] پھر فرماتا ہے تمہارے دِل جو کریں اس پر گرفت ہے یعنی اپنے جھوٹ کا علم ہو اور پھر قسم کھائے جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ»[ 5-المائدہ: 89 ] یعنی جو تم مضبوط اور تاکید والی قسمیں کھا لو۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والا ہے اور ان پر علم و کرم کرنے والا ہے۔