تفسير ابن كثير



ربوہ کے معنی ٭٭

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد و عورت کے بغیر پیدا کیا حواء کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا۔ بقیہ تمام انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا۔ ربوہ کہتے ہیں بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھاس پانی والی تروتازہ اور ہری بھری تھی۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس غلام اور نبی کو اور ان کی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں جگہ دی تھی۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی۔ کہتے ہیں یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا۔ ربوۃ ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال ربوہ میں ہو گا۔ وہ ریتلی زمین میں فوت ہوئے۔ [طبرانی اوسط:11188:ضعیف] ‏‏‏‏

ان تمام اقوال میں زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے آیت «قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا» [ 19- مريم: 24 ] ‏‏‏‏ تیرے رب نے تیرے قدموں تلے ایک جاری نہر بہا دی ہے۔ پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.