پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت «وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ»[ 6۔ الانعام: 152 ] یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت «اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا»[ 4۔ النسآء: 10 ] ۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کر دیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہو جائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیانِ یتیم بھی تنگ آ گئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جس پر یہ آیت «قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ»[ 2۔ البقرہ: 220 ] نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی، [سنن ابوداود:2871، قال الشيخ الألباني:حسن] ابوداؤد ونسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے۔
سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا الگ ہو، اس کا پینا الگ ہو۔ «اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ»[ البقرہ: 220 ] سے تو یہی علیحدگی مراد ہے لیکن پھر «وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ»[ البقرہ: 220 ] فرما کر اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لیے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہیئے۔ قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تکلیف و مشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کر دی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لیے مباح قرار دیا، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لا سکتا ہے، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے، یہ مسائل ان شاءاللہ وضاحت کے ساتھ سورۃ نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے۔