«قُلِ الْعَفْوَ» کی ایک قرأت «قُلِ الْعَفْوُ» بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہو سکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مالدار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں؟ جس کے جواب میں آیت «قُلِ الْعَفْوَ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ»[ البقرہ: 219 ] کہا گیا۔ [الدار المنثور::453/1] یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے، طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو، ربیع رحمہ اللہ کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لیے بیٹھ جاؤ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی خرچ کر سکتا ہے۔ [سنن ابوداود:1691، قال الشيخ الألباني:صحیح]
صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور حاجت مندوں پر، [صحیح مسلم:997] اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے [صحیح بخاری:5355]
ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لیے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لیے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں۔ [صحیح مسلم:1036] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہو گیا، حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے، ٹھیک قول یہی ہے۔
پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تاکہ تم دنیائے فانی کی طرف بیرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہو جاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، حضرت حسن رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور و تدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہیئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔