یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبش یہ سمجھ کر کہ مشرکین مکہ اب مسلمان ہو گئے واپس مکے آ گئے۔ لیکن یہ روایت ہر سند سے مرسل ہے۔ کسی صحیح سند سے مسند مروی نہیں، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
چنانچہ ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف میں سورۃ النجم کی تلاوت فرمائی جب یہ آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ رہے تھے آیت «أَفَرَأَيْتُمْ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاة الثَّالِثَة الْأُخْرَى»[53-النجم:19] تو شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ الفاظ ڈالے کہ ( «تِلْكَ الْغَرَانِيق الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتهنَّ تُرْتَجَى») پس مشرکین خوش ہو گئے کہ آج تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے معبودوں کی تعریف کی جو اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کی۔ چنانچہ ادھر حضور نے سجدہ کیا ادھر وہ سب بھی سجدے میں گر پڑے اس پر یہ آیت اتری «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ»[22-الحج:52] الخ، اسے ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے یہ مرسل ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:25331:مرسل و ضعیف]
مسند بزار میں بھی اس کے ذکر کے بعد ہے کہ صرف اسی سند سے ہی یہ متصلاً مروی ہے۔ صرف امیہ بن خالد ہی اسے وصل کرتے ہیں وہ مشہور ثقہ ہیں۔ یہ صرف طریق کلبی سے ہی مروی ہے۔ [ضعیف] ابن ابی حاتم نے اسے دو سندوں سے لیا ہے لیکن دونوں مرسل ہیں، ابن جریر میں بھی مرسل ہے۔
قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آ گئی اور شیطان نے آپ کی زبان پر ڈالا ( «وَإِنَّ شَفَاعَتهَا لَتُرْتَجَى وَإِنَّهَا لَمَعَ الْغَرَانِيق الْعُلَى») نکلوادیا۔ مشرکین نے ان لفظوں کو پکڑ لیا اور شیطان نے یہ بات پھیلا دی۔ اس پر یہ آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ»[22-الحج:52] اتری اور اسے ذلیل ہونا پڑا۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ سورۃ النجم نازل ہوئی اور مشرکین کہہ رہے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارے معبودوں کا اچھے لفظوں میں ذکر کرے تو ہم اسے اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑیں مگر اس کا تو یہ حال ہے کہ یہود ونصاری اور جو لوگ اس کے مخالف ہیں اس سب سے زیادہ گالیوں اور برائی سے ہمارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے۔
اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر سخت مصائب توڑے جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ہدایت کی لالچ تھی جب سورۃ النجم کی تلاوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کی اور «أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَىٰ»[53-النجم:21] تک پڑھا تو، شیطان نے بتوں کے ذکر کے وقت یہ کلمات ڈال دئیے ( «وَإِنَّهُنَّ لَهُنَّ الْغَرَانِيق الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتهنَّ لَهِيَ الَّتِي تُرْتَجَى») یہ شیطان کی مقفی عبارت تھی۔
ہر مشرک کے دل میں یہ کلمے بیٹھ گئے اور ایک ایک کو یاد ہو گئے یہاں تک کہ یہ مشہور ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ کے خاتمے پر سجدہ کیا تو سارے مسلمان اور مشرکین بھی سجدے میں گر پڑے، ہاں ولید بن مغیرہ چونکہ بہت ہی بوڑھا تھا اس لیے اس نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر اونچی لے جا کر اس کو اپنے ماتھے سے لگا لیا۔
اب ہر ایک کو تعجب معلوم ہونے لگا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں فریق سجدے میں شامل تھے۔ مسلمانوں کو تعجب تھا کہ یہ لوگ ایمان تو لائے نہیں، یقین نہیں، پھر ہمارے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے پر سجدہ انہوں کیسے کیا؟ شیطان نے جو الفاظ مشرکوں کے کانوں میں پھونکے تھے وہ مسلمانوں نے سنے ہی نہ تھے ادھر ان کے دل خوش ہو رہے تھے کیونکہ شیطان نے اس طرح آواز میں آواز ملائی کہ مشرکین اس میں کوئی تمیز ہی نہ کر سکتے تھے ۔
وہ تو سب کو اسی یقین پر پکا کر چکا تھا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سورت کی ان دونوں آیتوں کو تلاوت فرمایا ہے۔ پس دراصل مشرکین کا سجدہ اپنے کو تھا۔
شیطان نے اس واقعہ کو اتنا پھیلا دیا کہ مہاجرین حبشہ کے کانوں میں بھی یہ بات پہنچی۔ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب سنا کہ اہل مکہ مسلمان ہو گئے ہیں بلکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور ولید بن مغیرہ سجدہ نہ کرسکا تو اس نے مٹی کی ایک مٹھی اٹھا کر اس پر سرٹکالیا۔ مسلمان اب پورے امن اور اطمینان سے ہیں تو انہوں نے وہاں سے واپسی کی ٹھانی اور خوشی خوشی مکے پہنچے۔
ان کے پہنچنے سے پہلے شیطان کے ان الفاظ کی قلعی کھل چکی تھی اللہ نے ان الفاظ کو ہٹا دیا تھا اور اپنا کلام محفوظ کر دیا تھا یہاں مشرکین کی آتش عداوت اور بھڑک اٹھی تھی اور انہوں نے مسلمانوں پر نئے مصائب کے بادل برسانے شروع کردئے تھے یہ روایت بھی مرسل ہے۔
بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی یہ روایت ہے امام محمد ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے اپنی سیرت میں لائے ہیں لیکن یہ سندیں مرسلات اور منقطعات ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
امام بغوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یہ سب کچھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کے کلام سے اسی طرح کی روایتیں وارد کی ہیں۔ پھر خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کا ذمہ دار محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہوگئی۔“ پھر بہت سے جواب دئے ہیں جن میں ایک لطیف جواب یہ بھی ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ لوگوں کے کانوں میں ڈالے اور انہیں وہم ڈالا کہ یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے ہیں حقیقت میں ایسا نہ تھا یہ صرف شیطانی حرکت تھی نہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز۔ [نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق الألباني:0000،قال الشيخ الألباني:باطل] «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اور بھی اسی قسم کے بہت سے جواب متکلمین نے دئے ہیں۔ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے بھی شفاء میں اسے چھیڑا ہے اور ان کے جواب کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ کا اپنا فرمان اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان کا تصرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ناممکن ہے۔ مگر جب کہ وہ آرزو کرتا ہے الخ۔
اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی فرمائی گئی ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر پریشان خاطر نہ ہوں اگلے نبیوں رسولوں علیہم السلام پر بھی ایسے اتفاقات آئے “۔
بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس کی آرزو میں جب نبی بات کرتا ہے تو شیطان اس کی بات میں بول شامل کر دیتا ہے پس شیطان کے ڈالے ہوئے کو باطل کر کے پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے ۔
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں «تَمَنَّىٰ» کا معنی «قَالَ» کے ہیں «أُمْنِيَّتِهِ» کے معنی «قَرَائَتِهِ» کے ہیں «إِلَّا أَمَانِيَّ» کا مطلب یہ ہے کہ پڑھتے ہیں لکھتے نہیں۔
بغوی رحمتہ اللہ علیہ اور اکثر مفسیرین کہتے ہیں «تَمَنَّىٰ» کے معنی «تَلَا» کے ہیں یعنی جب کتاب اللہ پڑھتا ہے تو شیطان اس کی تلاوت میں کچھ ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مدح میں شاعر نے کہا ہے۔ شعر «تَمَنَّى كِتَابَ اللَّهِ أَوَّلَ لَيْلَةٍ وَآخِرَهَا لَاقَى حِمَامَ الْمَقَادِرِ» ۔ یہاں بھی لفظ «تَمَنَّىٰ» پڑھنے کے معنی میں ہے۔
ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ قول بہت قریب کی تاویل والا ہے۔ نسخ کے حقیقی معنی لغتاً ازلہ اور رفع کے معنی ہٹانے اور مٹادینے کے ہیں یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ شیطان کے القا کو باطل کر دیتا ہے۔ جبرائیل علیہ السلام بحکم الٰہی شیطان کی زیادتی کو مٹا دیتے ہیں اور اللہ کی آیتیں مضبوط رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کا جاننے والا ہے۔ کوئی مخفی بات بھی کوئی راز بھی اس پر پوشیدہ نہیں، وہ حکیم ہے اس کا کام الحکمت سے خالی نہیں۔ یہ اس لیے کہ جن کے دلوں میں شک، شرک، کفر اور نفاق ہے، ان کے لیے یہ فتنہ بن جائے۔
چنانچہ مشرکین نے اسے اللہ کی طرف سے مان لیا حالانکہ وہ الفاظ شیطانی تھے۔ لہٰذا بیمار دل والوں سے مراد منافق ہیں اور سخت دل والوں سے مراد مشرک ہیں۔ یہ بھی قول ہے کہ مراد یہود ہیں۔ ظالم حق سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ وہ سیدھے راستے سے گم ہو گئے ہیں اور جنہیں صحیح علم دیا گیا ہے جس سے وہ حق و باطل میں تمیز کرلیتے ہیں انہیں اس بات کے بالکل حق ہونے کا اور منجانب اللہ ہونے کا صحیح یقین ہو جائے اور وہ کامل الایمان بن جائیں اور سمجھ لیں کہ بیشک یہ اللہ کا کلام ہے جبھی تو اس قدر اس کی حفاظت دیانت اور نگہداشت ہے۔ کہ کسی جانب سے کسی طریق سے اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی۔ حکیم وحمید اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے پس ان کے دل تصدیق سے پر ہو جاتے ہیں، جھک کر رغبت سے متوجہ ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایمان داروں کی رہبری دنیا میں حق اور ہدایت کی طرف کرتا ہے صراط مستقیم سجھا دیتا ہے اور آخرت میں عذابوں سے بچا کر بلند درجوں میں پہنچاتا ہے اور نعمتیں نصیب فرماتا ہے۔