سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”یہ آیت ہمارے بارے میں اتری ہے۔ ہم بےسبب خارج ازوطن کئے گئے تھے، پھر ہمیں اللہ نے سلطنت دی، ہم نے نماز و روزہ کی پابندی کی بھلے احکام دئیے اور برائی سے روکنا جاری کیا۔ پس یہ آیت میرے اور میرے ساتھیوں کے بارے میں ہے۔“
ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”مراد اس سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“
خلیفہ رسول عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے خطبے میں اس آیت «الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ»[22-الحج:41] کی تلاوت فرما کر فرمایا ”اس میں بادشاہوں کا بیان ہی نہیں بلکہ بادشاہ رعایا دونوں کا بیان ہے۔ بادشاہ پر تو یہ ہے کہ حقوق الٰہی تم سے برابر لے اللہ کے حق کی کوتاہی کے بارے میں تمہیں پکڑے اور ایک کا حق دوسرے سے دلوائے اور جہاں تک ممکن ہو تمہیں صراط مستقیم سمجھاتا رہے۔ تم پر اس کا یہ حق ہے کہ ظاہر وباطن خوشی خوشی اس کی اطاعت گزاری کرو۔“
عطیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی آیت کامضمون آیت «وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ»[24-النور:55] میں ہے۔ کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہے۔ «وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ»[28-القص:83] عمدہ نتیجہ پرہیزگاروں کا ہو گا۔ ہرنیکی کا بدلہ اسی کے ہاں ہے۔