تفسير ابن كثير



باب

جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقابلے میں ایک بمشکل بیٹھتا۔

چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شب خون ماریں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔

یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی (‏‏‏‏٨٠)‏‏‏‏‏‏‏‏ سے کچھ اوپر تھے۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے درپے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے۔

اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے۔ بیک بینی و دوگوش وطن مال اسباب، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کر چل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا۔

اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہو گئی۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری۔

اس میں بیان فرمایا گیا کہ ” یہ مسلمان مظلوم ہیں، ان کے گھربار ان سے چھین لیے گئے ہیں، بے وجہ گھر سے بے گھر کر دئیے گئے ہیں، مکے سے نکال دئیے گئے، مدینے میں بے سرو سامانی میں پہنچے۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں “۔

فرمان ہے آیت «يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِيْ» [60-الممتحنة:1] ‏‏‏‏ ” تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے “۔

خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت «مَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ» [85-البروج:8] ‏‏‏‏ یعنی ” دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب، مہربان، ذی احسان پر ایمان لائے تھے “۔

مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے، شعر «لَا هُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اِهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا» «فَأَنْزِلَن سَكِينَة عَلَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَام إِنْ لَاقَيْنَا» «إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَة أَبَيْنَا» خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور «‏‏‏‏أَبَيْنَا» ‏‏کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے ۔ [صحیح بخاری:4106] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے ” اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شر فساد مچ جاتا، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا “۔

عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو «صَوَامِعُ» کہتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو «صَوَامِعُ» کہتے ہیں۔ مقاتل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں۔

«بِيَعٌ» ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں۔

صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد۔

«فِيهَا» کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لیے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع، نصرانیوں کے بیع، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے۔

بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں۔

پھر فرمایا ” اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے “، جیسے فرمان ہے آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ» [47-محمد:8،7] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر اے مسلمانو! تم اللہ کے دین کی امداد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں “۔

پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کر دیا، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بے نیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب۔

فرماتا ہے آیت «وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ» [37-الصافات:173-171] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کر لیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا “۔

اور آیت میں ہے «كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ» [58-المجادلة:21] ‏‏‏‏ ” اللہ کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والا ہے “۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.