ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلا کہ ”افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقیناً یہ تباہ ہوں گے۔“ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی ۔ [سنن ترمذي:3171،قال الشيخ الألباني:صحیح الاسناد]
اور آیت میں ہے «فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ»[47-محمد:4-6] ” اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر چاہے تو بے لڑے بھڑے انہیں غالب کر دے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لیے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو “۔ الخ،
اور آیت میں ہے فرمایا «قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّـهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ»[9-التوبہ:15،14] ” ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے “۔
اور آیت میں ہے «اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً وَاللّٰهُ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ»[9-التوبہ:16] یعنی ” کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں، اللہ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے “۔
اور آیت میں ہے «حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ»[3-آل عمران:142] ” کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے “۔
اور آیت میں فرمایا ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ»[47-محمد:31] ” ہم تمہیں یقیناً آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہو جائیں “۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔
پھر فرمایا ” اللہ ان کی مدد پر قادر ہے “۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کر دیا۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لیے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا۔